افغان جنگ کے بارے میں امریکی عوام سے جھوٹ بولاگیا

ہم افغانستان سے متعلق مکمل طور پر آگاہ نہیں تھے اور نہ ہی یہ جانتے تھے کہ آخر یہاں کیا کر رہے ہیں. جنرل ڈگلس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 10 دسمبر 2019 14:01

افغان جنگ کے بارے میں امریکی عوام سے جھوٹ بولاگیا
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 دسمبر ۔2019ء) افغانستان کے حوالے سے امریکی محکمہ دفاع ‘فوج اور حکومتی خفیہ معلومات سامنے آنے سے ایک نئی بحث چھڑگئی ہے کہ اگر اعلی امریکی حکام کو جنگ کی حقیقی صورتحال کا علم تھا تو اتنی انسانی جانیں کیوں ضائع کروائی گئیں؟ امریکی حکومت کے کئی سابق اہلکاروں، فوجی افسران اور دیگر ذمہ داران نے اعتراف کیا ہے کہ افغان جنگ میں امریکہ کی ناکامی کے واضح شواہد موجود تھے لیکن اس کے باوجود امریکی عوام کو اس بارے میں غلط معلومات فراہم کی گئیں .

امریکی جریدے ”واشنگٹن پوسٹ“ نے افغانستان میں تقریباً 20 سال سے جاری جنگ میں براہِ راست کردار ادا کرنے والے امریکی اور افغان حکام، امدادی اہلکاروں اور فوجی افسران کے انٹرویوز اور دیگر دستاویزات جمع کی ہیں‘دو ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل دستاویزات کے مطابق بیشتر امریکی حکام اس بات سے ہی لاعلم تھے کہ وہ افغانستان میں آخر موجود کیوں ہیں .

جریدے نے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دورِ صدارت میں وزیرِ دفاع رہنے والے ڈونلڈ رمز فیلڈ کی جانب سے لکھے گئے سینکڑوں میموز بھی حاصل کیے ہیںان خفیہ دستاویزات اور سابق فوجی کمانڈرز کے انٹرویوز امریکہ کے سابق صدور، فوجی سربراہان اور سفارت کاروں کے ان بیانات کی تردید کرتے ہیں جن میں امریکی عوام کو سالہا سال تک یہ بتایا جاتا رہا کہ امریکہ کو افغانستان میں کامیابی مل رہی ہے اور افغان جنگ امریکہ کے مفاد میں ہے .

جریدے کے مطابق تھری اسٹار جنرل ڈگلس لیوٹ کا 2015 میں ایک انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ ہم افغانستان سے متعلق مکمل طور پر آگاہ نہیں تھے اور ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم یہاں کیا کر رہے ہیں‘ڈگلس لیوٹ سابق صدور جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما کے ادوارِ حکومت میں افغان جنگ سے متعلق امور پر وائٹ ہاﺅس کے معاون تھے . جنرل ڈگلس کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم یہاں کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم جو کچھ کر رہے تھے اس کا ہمیں تصور بھی نہیں تھا‘سابق آرمی جنرل مائیکل فلن بھی انٹرویوز دینے والوں میں شامل ہیں انہوں نے امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں بھی مختصر مدت کے لیے قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر خدمات انجام دیں .

2015 میں دیے گئے اپنے انٹرویو میں جنرل مائیکل فلن کا کہنا تھا کہ سفارت کار سے لے کر نچلی سطح تک سب کہہ رہے ہیں کہ ہم افغانستان میں بہت زبردست کام کر رہے ہیں اگر ایسا ہی ہے تو یہ کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم شکست کھا رہے ہیں‘امریکہ کے کئی سینئر حکام نے اپنے انٹرویوز کے دوران اعتراف کیا کہ طالبان حکومت کے خاتمے اور افغانستان سے القاعدہ کی جڑیں ختم کرنے کے باوجود امریکہ کی کوئی واضح حکمتِ عملی یا مقاصد نہیں تھے .

امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر اہلکار برائے جنوبی ایشیا رچرڈ باﺅچر کا 2015 میں دیے گئے انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں وہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حاصل ہی نہیں کیا جاسکتا‘مغربی ممالک کے فوجی اتحاد ”نیٹو“ کے ساتھ بطور امریکی معاون کام کرنے والے ایک سینئر افسر نے افغانستان میں امریکی حکمت عملی پر سوالات اٹھائے . دستاویزات میں اس افسر کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔

(جاری ہے)

البتہ ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں کیا کر رہے ہیں؟ وہاں موجودگی کے مقاصد کیا ہیں؟ خواتین کے حقوق؟ ملک کی ترقی؟ یہ تمام چیزیں ہمارے ذہنوں میں بھی واضح نہیں تھیں .

جیفری ایگر ریٹائرڈ نیوی سیل ہیں اور وہ سابق صدر براک اوباما اور جارج ڈبلیو بش کے دورِ حکومت میں وائٹ ہاﺅس میں خدمات انجام دے چکے ہیں‘انہوں نے افغانستان میں امریکہ کی موجودگی اور اس جنگ پر آنے والے اخراجات پر کئی سوالات اٹھائے‘جیفری ایگر کا کہنا ہے کہ 10 کھرب ڈالر کی خدمات کے عوض ہم نے افغانستان میں کیا حاصل کیا؟ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد وہ اپنی قبر میں ہنس رہے ہوں گے کہ ہم نے افغانستان میں کتنا سرمایہ گنوا دیا .

ان انٹرویوز سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی حکام جانتے تھے کہ افغانستان میں جاری جنگ جیتی نہیں جاسکتی اور وہ ناقابل تردید حقائق کو بھی چھپاتے رہے جریدے کے مطابق یہ انٹرویوز اور دیگر دستاویزات لیسن لرنڈ نامی منصوبے کا حصہ ہیں جنہیں افغانستان کی بحالی کے معاملات کے نگران اسپیشل انسپکٹر جنرل کے دفتر نے مرتب کیا تھا‘انٹرویوز لینے والے فیڈرل ایجنسی کے سربراہ جان سوپکو نے تسلیم کیا کہ دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے عوام سے تسلسل کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا رہا .