شہریت کے متنازع ترمیمی بل کی منظور ی کے بعد بھارت میں مودی سرکار کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری

آل موران طلبہ یونین نے شہریت کے ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے 48 گھنٹے کی ہڑتال کی کال دیدی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 10 دسمبر 2019 18:50

شہریت کے متنازع ترمیمی بل کی منظور ی کے بعد بھارت میں مودی سرکار کے ..
نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 دسمبر ۔2019ء) بھارتی لوک سبھا میں شہریت کے متنازع ترمیمی بل کی منظور ی کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں مودی سرکار کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے. بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کی بار بار اس بات کی یقین دہانی کہ یہ بل مسلمان مخالف نہیں، اس کے باوجود شمال مشرقی ریاستوں آسام، تریپورہ اور میگھالیہ میں مظاہرے جاری ہیں.

خاص طور پر بھارتی ریاست آسام میں کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں ہے جہاں دن میں مظاہرے اور رات میں مشعل کے ساتھ جلوس نہ نکل رہے ہوںطلبہ این آر سی کو بھی مسترد کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ وہاں پھر سے این آر سی ہو اور کیا ہندو کیا مسلمان جو بھی اس سے باہر ہوں اسے وہاں سے نکالا جائے.

(جاری ہے)

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق آل موران طلبہ یونین نے شہریت کے ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے 48 گھنٹے کی ہڑتال کی کال دی ہے اور سڑکوں پر گاڑیوں کے ٹائڑ جلتے نظر آ رہے ہیں پولیس نے ڈبروگڑھ اور گوہاٹی میں مظاہروں کو روکنے کے لیے لاٹھی چارج کیا ہے.

ایک اور رپورٹ کے مطابق کھاسی طلبہ یونین کی کال پر ریاست میگھالیہ میں معمول کی زندگی مفلوج ہو گئی ہے حکام نے کہا ہے کہ تعلیمی اداروں کے ساتھ دکانیں اور بازار بھی بند ہیں البتہ سرکاری دفاتر کھلے ہوئے ہیں لیکن وہاں دس فیصد سے کم ہی حاضری ہے حکام نے بتایا ہے کہ حساس علاقوں میں سی آر پی ایف تعینات کی گئی ہے. اس بل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ بل بھارتی آئین کے آرٹیکل 5، 10، 14 اور 15 کی روح کے منافی ہے‘بہت سے سیاسی اور سماجی حلقے بھی اس بل کو متنازع قرار دے رہے ہیں جس میں بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی6 اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھ) سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کی تجویز ہے‘ناقدین کا کہنا ہے کہ اس میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری نے بھی اس بل کو آرٹیکل 5، 10، 14 اور 15 کی خلاف ورزی قرار دیا ہے تاہم وزیر داخلہ امت شاہ کا کہنا ہے کہ یہ بل اقلیتوں کے خلاف نہیں ہے.

شہریت کے ایکٹ 1955 میں بیرون ملک سے غیر قانونی طور پر آنے والے لوگوں کی تعریف کی گئی ہے اس میں دو زمرے ہیں ایک جو پاسپورٹ یا ویزے یعنی بغیر ضروری دستاویزات لے آئے ہیں اور دوسرے جو صحیح دستاویزات لے کر آئے لیکن مقررہ وقت کے بعد بھی یہاں رہے‘اسی کے سیکشن دو میں ایک ترمیم کی جارہی ہے بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے 6 برادریوں کو غیر قانونی تارکین وطن کے زمرے سے ہٹا دیا گیا ہے لیکن اس ترمیمی بل میں کوئی لفظ مسلم نہیں ہے.

یعنی اگر ان تینوں ممالک سے کوئی دستاویزات کے بغیر آیا ہے اور وہ مسلمان ہے تو وہ غیر قانونی تارکین وطن کہلائے گا اور اسے بھارت میں شہریت کے لیے درخواست دینے کا حق نہیں ہوگااب تک کوئی بھی شہریت کی درخواست دینے کا اہل نہیں تھا لیکن اس بل کی منظوری کے بعد مسلمانوں کے علاوہ باقی چھ مذہبی برادریاں اہل ہوں گی اسی لیے یہ کہا جارہا ہے کہ مسلم برادری کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کیا جارہا ہے جو بھارتی آئین کی روح کے منافی ہے ّ.

آرٹیکل پانچ میں کہا گیا ہے کہ جب آئین نافذ ہو رہا تھا تو اس وقت بھارت کا شہری کون ہوگا اس کی وضاحت اس طرح سے کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص بھارت میں پیدا ہوا تھا، یا جس کے والدہ یا والد بھارت میں پیدا ہوئے تھے، یااگر کوئی شخص آئین کے نفاذ سے قبل کم از کم 5 سال سے بھارت میں رہ رہا ہے تو وہ بھارت کا شہری ہوگا جب 26 جنوری 1950 کو یہ آئین نافذ ہوا اس دن بھارت کا شہری کون ہوگا اس کا ذکر آئین کے آرٹیکل پانچ میں موجود ہے.

بھارتی آئینی ماہر پروفیسر چنچل سنگھ کا کہنا ہے کہ جب آئین نافذ ہو گیا تو آرٹیکل 5 اہم نہیں رہا اور آرٹیکل 7، 8، 9 اور 10 اہم ہوجاتا ہے اس کے بعد آرٹیکل 11 اہم ہے کیوںکہ یہ پارلیمنٹ کو بہت وسیع اختیارات دیتا ہے اس میں آئین کی نظر میں مساوات کا ذکر ہے یعنی بھارت کی سرزمین میں کسی بھی فرد کو قانون کی نظر میں مساوات یا مساوی حقوق کے تحفظ سے محروم نہیں کیا جائے گا.

پروفیسر چنچل کا کہنا ہے کہ بھارتی آئین کی بنیاد مساوات ہے واضح طور پر جب اس کی خلاف ورزی ہو رہی تو اس کی روح مجروح ہو رہی ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہے جب سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کسی قانون کی صداقت کی جانچ کرتی ہے تو وہ بنیادی ڈھانچے کو قانون سازی پر نافذ نہیں کرتی ہے وہ صرف آئین کے ترمیم شدہ قانون پر عائد ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ نیا بل مستثنی ہو گیا ہے.

سپریم کورٹ کے پاس کئی بنیادیں ہیںپہلی گراﺅنڈ تو آرٹیکل 13 ہے. اگر عدالت کو محسوس ہوتا ہے کہ کسی بنیادی حق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو وہ آرٹیکل 13 کا استعمال کر سکتا ہے‘اسی طرح آرٹیکل 15 کے تحت ریاست کسی شہری کے ساتھ مذہب، نسل، ذات، جنس، جائے پیدائش یا ان میں سے کسی بھی بنیاد پر کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کرے گی لہذا ترمیمی بل کوآرٹیکل 14 اور 15 کی خلاف ورزی کی بنا پر اسے عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور حکومت کے لیے عدالت میں اس کا دفاع کرنا مشکل ہوگا.

پروفیسر چنچل کا کہنا ہے کہ اس بل سے واضح طور پر مذہبی بنیادوں پر امتیاز برتا جائے گا انہوں نے کہا کہ اس نئے ترمیمی بل کی تمہید میں کہا گیا ہے کہ ان تینوں ممالک میں 6 برادریوں کے خلاف ظلم کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اسلامی ممالک ہیں لیکن قانونی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ صرف ان مذاہب کے لوگوں پر ہی ظلم کیا جاتا ہے اور اسے ہمارے آئین کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا ہے کسی کے حق کو محدود نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ آرٹیکل 14 کے تحت کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل نہیں ہے ، لیکن ہر اس شخص کو یہ حق حاصل ہے جو ہندوستان میں ہے چاہے وہ غیر قانونی طور پر آیا ہو لہذا اس میں کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوسکتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آرٹیکل 14 اور 15 کے تحت ان کا غیر قانونی ہونا ختم ہو گیا لیکن اس کے تحت ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا‘یہ بنیادی شہری حقوق حکومت کے اختیارات کی ایک حد مقرر کرتے ہیں.

آرٹیکل 11 کے تحت پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شہریت کے ضابطے بنا سکے یعنی وہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ کس کو شہریت ملے گی، کب ملے گی، کب کون نااہل قرار دیا جائے گا اور کن کن حالات میں کوئی غیر ملکی بھارت کا شہری بن سکتا ہے پارلیمنٹ کو ان تمام چیزوں پر قانون بنانے کا حق دیا گیا ہے‘آرٹیکل 13 کے حصہ تین میں بھارت کے شہریوں اور بھارت میں رہنے والوں کے کئی بنیادی حقوق کا ذکر ہے آرٹیکل 13 کا کہنا ہے کہ نہ ہی پارلیمنٹ اور نہ ہی حکومت یا کوئی ریاست ایسا کوئی قانون تشکیل دے سکتی ہے جو ان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرے اور شاید اسی لیے ادھیر رنجن چودھری اور ترمیمی بل کے دیگر مخالفین کا کہنا ہے کہ اس میں مذہب کی بنیاد پر تعصبات ہیں.