کیا ملکہ برطانیہ سلسلہ نسب واقعی حضرت علیؓ سے ملتا ہے؟

برطانوی ادارے برکس پیئرج نے1986میں رپورٹ میں دعوی کیا تھا مگر یہ ثابت نہیں ہوسکا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 11 دسمبر 2019 11:45

کیا ملکہ برطانیہ سلسلہ نسب واقعی حضرت علیؓ سے ملتا ہے؟
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 دسمبر ۔2019ء) سوشل میڈیا پر ملکہ برطانیہ کے عرب ہونے یا نہ ہونے پر پھر بحث شروع ہوگئی ہے 1986میں برطانیہ کے برکس پیئرج نامی ایک ادارے جو برطانوی اشرافیہ کے شجروں کے بارے میں تحقیق کرتا رہتا ہے اپنی ایک اشاعت میں رپورٹ چھاپی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ برطانوی شاہی خاندان کی رگوں میں عرب خون دوڑ رہا ہے اور ان کا سلسلہ نسب حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے یہی نہیں بلکہ ادارے کے ڈائریکٹر نے اس وقت کی برطانوی وزیرِ اعظم کو خط بھی لکھا کہ اس انکشاف کے بعد ملکہ برطانیہ کی سکیورٹی بڑھا دی جائے کیوں کہ اب ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے.

(جاری ہے)

اس وقت انٹرنیٹ عام نہیں ہوا تھا اور سوشل میڈیا کا تو وجود تک نہ تھا، اس لیے یہ خبر کچھ زیادہ عام نہیں ہو سکی البتہ 2015 میں اس نے دوبارہ سر اٹھایا اور مصر کے مفتیِ اعظم علی جمعہ نے اس کا ذکر کر کے گویا جلتی پر تیل ڈال دیا. انہوں نے ایک مصری ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے کہہ دیا کہ بنی ہاشم کے گھرانے کا ایک فرد برطانیہ میں گرفتار ہوا تھا جسے زبردستی عیسائی بنا لیا گیا کہا جاتا ہے کہ وہ ملکہ الزبتھ کا دادا تھا یہ درج شدہ اور پیچیدہ معاملہ ہے اس بارے میں عربی اور انگریزی میں کتابیں لکھی گئی ہیں.

علی جمعہ کا یہ کہنا بالکل بے بنیاد تھا کہ ملکہ الزبتھ کے دادا مسلمان تھے برکس پیئرج کی رپورٹ بہت صدیاں پیچھے جا کر ان کا سلسلہ مسلمانوں سے جوڑتی ہے اسی دوران ایک مراکشی جریدے نے ملکہ کا 43 نسلوں پر مشتمل تفصیلی شجرہ چھاپ کر اور ان کا ناطہ حضرت محمد سے جوڑ کر گویا مہرتصدیق ثبت کر دی‘اس پر ایک جریدے نے طنز الکھا کہ اب ملکہ برطانیہ کو دنیا کے تمام مسلمان ملکوں پر حکومت کا حق بھی حاصل ہو گیا ہے.اخباروں میں جو تفصیلی شجرے چھپے ان کے مطابق ایک ہزار سال پہلے ملکہ برطانیہ کے آبا و اجداد میں سے ایک خاتون ایسی تھیں جن کا تعلق اندلس کے مسلمان شاہی خاندان سے تھا اور وہ مسلمان تھیں.

برطانوی جریدے کی رپورٹ کے مطابق چونکہ مسلمانوں نے سپین پر طویل صدیاں حکومت کی ہے اس دوران مختلف شاہی خاندان وہاں برسرِ اقتدار رہے ہیں انہی میں سے ایک بنو عباد کہلاتا ہے جس نے 1023 سے لے کر 1091 تک طوائف الملوکی کے دور میں اشبیلیہ کے طائفے پر حکومت کی اس خاندان کے تیسرے اور آخری حکمران معتمد بن عباد تھے جو عمدہ شاعر بھی تھے. معتمد کے دور ہی میں شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے جنگجو یوسف بن تاشفین نے اندلس پر حملہ کر کے اس کے بڑے حصے پر قبضہ کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ‘جہاں یوسف بن تاشفین نے مسیحی حکمرانوں کو شکست دی، وہیں مختلف مسلمان ریاستوں کو بھی اپنی حکومت میں ضم کر لیا اسی کی زد میں معتمد کی ریاست بھی آ گئی.

اصل میں سخت جاں و سخت کوش بربر قبائلیوں کو معتمد کا پر تعیش طرزِ زندگی ایک آنکھ نہیں بھایا اور انہوں نے بادشاہ کو گرفتار کر کے مراکش بھیج دیا جہاں ان کا قید کے دوران انتقال ہوا . الاسبوع کے شجرے کے مطابق انہی معتمد کی ایک بیٹی زائدہ نامی تھیں یوسف بن تاشفین نے جب معتمد کو شکست دی تو زائدہ مسیحیوں کے علاقے قشتالیہ چلی گئیں جہاں انہیں حکمران الفانسو ششم نے اپنے حرم میں شامل کر لیا اس کے بعد تاریخ کے صفحات دھند میں چھپے ہوئے ہیں.

بعض مورخین کا خیال ہے کہ زائدہ نے الفانسو کی بیٹی ازابیلا کو جنم دیا جن سے ان کا سلسلہ آگے چلا، کچھ کا خیال ہے کہ ازابیلا کی ماں دوسری تھی بہرحال، پہلے مکتبہ فکر کے مطابق اسی ازابیلا کی ایک سگڑپوتی ازیبلا قشتالی کی شادی 13 جولائی 1372 کو برطانیہ کے شہزادہ ایڈمنڈ آف لینگلی سے ہوئی. ایڈمنڈ لینگلی ملکہ الزبتھ دوم کے جدِ امجد ہیں‘اس مفروضے کے مطابق وہ زائدہ کے وسیلے سے عربوں سے جڑے ہوئے ہیں، اس لیے انہی کی وساطت سے موجودہ ملکہ برطانیہ کا سلسلہ بھی نبی کریمﷺ سے جا ملتا ہے یہ کہانی دلچسپ و عجیب ضرور ہے، لیکن اس میں بڑے جھول ہیں پہلی بات یہ ہے کہ زائدہ کا سلسلہ ملکہ الزبتھ دوم سے تو ضرور ملایا جا سکتا ہے، لیکن زائدہ کا معتمد سے کیا رشتہ تھا، یہ بات اتنی سیدھی سادی نہیں.

یہ ضرور ہے کہ قدیم ہسپانوی تاریخ دان زائدہ کو معتمد کی بیٹی بتاتے رہے ہیں لیکن اس دور کے مسلمان ماخذات کے مطابق زائدہ معتمد کی بیٹی نہیں بلکہ بہو تھیںظاہر ہے کہ اس سلسلے میں مسلمان ماخذات زیادہ قابل اعتبار ہیں دوسری بات یہ ہے کہ اگر کھینچ تان کر زائدہ کو معتمد کی بیٹی مان بھی لیا جائے، تب بھی یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ معتمد حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی اولاد میں سے تھے یعنی آج کل کی زبان کے مطابق سادات تھے‘برکس پیئرج کے مطابق معتمد کا شجرہ اوپر جا کر 12 ویں سلسلے میں زہرہ بنت حسین سے جا ملتا ہے جو امام حسن کی پوتی تھیں‘اب معاملہ یہ ہے کہ تاریخ کی مستند کتابوں میں حسین بن حسن (ان کا اصل نام زید تھا، کنیت ابوالحسین تھی) کی زہرہ نامی کسی بیٹی کا ذکر نہیں ملتا ان کی تین اولادیں تھیں، حسن بن زید (جو عباسی دور میں مدینہ کے گورنر مقرر ہوئے)، محمد (جو بچپن میں فوت ہو گئے) اور ایک بیٹی نفیسہ‘اس لیے معتمد کی سیادت ثابت نہیں ہو سکتی.

دوسرا یہ کہ نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے، اور ملکہ کے حضرت علی تک شجرے میں دو چار نہیں، 13 خواتین آتی ہیں‘لیکن اس عنصر کو نظرانداز بھی کر دیا جائے تو بھی ملکہ الزبتھ کی سیادت کا انحصار زائدہ پر ہے، لیکن مستند تواریخ کے مطابق وہ معتمد کی بیٹی ثابت نہیں ہیں دوسری طرف یہ بھی واضح نہیں ہے کہ زائدہ کی نسل آگے چلی یا نہیں اگر یہ مان لیا جائے کہ نسل آگے چلی، اور یہ بھی مان لیا جائے کہ زائدہ واقعی معتمد کی بیٹی تھیں، تب بھی مسئلہ یہ درپیش آتا ہے کہ خود معتمد کی سیادت مصدقہ نہیں ہے کیوں کہ اس کا انحصار زہرہ بنت ابوالحسین بن حسن پر ہے، لیکن ان کا وجود تاریخ سے ثابت نہیں ہوتا.

چنانچہ برکس پیئرج کی تمام تر تحقیق ہوا میں قلعہ تعمیر کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں بھلے کتنا بھی کھینچا تانی کی جائے ملکہ باقی جو کچھ ہوں، سید ہرگز ثابت نہیں ہو سکتیں‘اس لیے انہیں کم از کم اس معاملے میں اضافی سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی دنیا کے مسلمان ملکوں پر ان کا حقِ حکمرانی قائم ہوتا ہے.
کیا ملکہ برطانیہ سلسلہ نسب واقعی حضرت علیؓ سے ملتا ہے؟