ایران میں حالیہ احتجاج کے دوران 1360 مظاہرین ہلاک، 10 ہزار گرفتارہوئے‘رپورٹ

نومبر کا مہینہ ایرانی عوام کے لیے خونی مہینہ تصور کیا جائیگا‘ مظاہرین کو جس بے دردی کیساتھ کچلا گیا، معاصر تاریخ میں اس کی کہیں مثال نہیں ملتی 9ء کے بعد پہلا موقع ہے ایران میں احتجاج کو روکنے کیلئے فوج طلب کی گئی‘ فوج نے پرامن احتجاجی تحریک کو خونی تحریک میں تبدیل کردیا

جمعہ 13 دسمبر 2019 12:26

ایران میں حالیہ احتجاج کے دوران 1360 مظاہرین ہلاک، 10 ہزار گرفتارہوئے‘رپورٹ
تہران (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 دسمبر2019ء) یکم نومبر کو ایران میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف اٹھنے والی احتجاجی تحریک کے دوران پولیس اور پاسداران انقلاب نے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا جس کے نتیجے میں ہزار مظاہرین جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔ایران میں نومبر کے وسط میں شروع ہونے والے احتجاج کے دوران پہلی ہلاکت سیرجان شہرمیں ہوئی۔

اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے احتجاج ملک کے طول وعرض میں پھیل گیا۔ حکومت نے احتجاج کا دائرہ پھیلتے دیکھا تو انٹرنیٹ پرپابندی عاید کردی اور طاقت کا استعمال بڑھا دیا۔ ایرانی حکومت کی طرف سے سرکاری سطح پر مظاہرین کی ہلاکتوں کے درست اعدادو شمار بیان نہیں کیے گئے۔ایران میں رضا شاہ پہلوی کے حامی طبقے کے قریب سمجھے جانے والے ایک تھینک ٹینک’’آبان سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز‘‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حالیہ احتجاج کے دوران ایرانی سیکیورٹی اداروں کی کارروائیوں میں 1360 مظاہرین ہلاک اور 10 ہزار زخمی ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

ایرانی ریسرچ سینٹرکی طرف سے یہ اعدادو شمارذمہ دار اور باوثوق سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے جاری کیے گئے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے مظاہرین کی ہلاکتوں کی اصل تعداد کو دانستہ طور پر چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نومبر کا مہینہ ایرانی عوام کے لیے خونی مہینہ تصور کیا جائے گا۔ ایران میں مظاہرین کو جس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ کچلا گیا ہے، معاصر تاریخ میں اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں ہونے والے احتجاج میں سپریم قومی سلامتی کونسل احتجاج روکنے یا اسے کنٹرول کرنے کا فیصلہ کرتی تھی مگر اس بار مظاہرین کو کنٹرول کرنے کا اختیار وزارت داخلہ کو دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل سیکیورٹی کونسل اور پاسداران انقلاب کو بھی مظاہروں کو روکنے اور دبانے کے لیے مکمل اختیار دیے گئے۔رپورٹ کے مطابق 1979ء کے بعد پہلا موقع ہے کہ ایران میں احتجاج کو روکنے کے لیے فوج طلب کی گئی۔

فوج نے دوسرے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر ملک میں جاری پرامن احتجاجی تحریک کو ایک خونی تحریک میں تبدیل کردیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران میں احتجاج کا سلسلہ شمالی خراسان اور جیلان سے شروع ہوا، اگلے چند روز میں احتجاج کا دائرہ 974 شہروں تک پھیل گیا۔ اصفہان، فارس، البرز، تہران، اھواز اور کرمان شہروں میں ہونے والے مظاہروں کے دوران طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15 نومبر کو شروع ہونے والے احتجاج کے پہلے پانچ گھنٹے میں دارالحکومت تہران میں 144 مقامات پر احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ رپورٹ کے مطابق 15 نومبر سے 22 نومبرتک جاری رہنے والے احتجاج کے دوران ساڑھے چھ سے 9 لاکھ افراد نے مظاہرے کیے۔ اس دوران 9400 کو گرفتار کیا گیا جبکہ پولیس کی کیارروائیوں میں 1360 مظاہرین ہلاک ہوئے۔مظاہروں کے دوران 45 تجارتی مراکز، 12 گھر 921 بنک برانچ، 1485 اے ٹی ایم مشینیں، 65 ہزار 295 ٹریفک سگنل، 160 پٹرول اسٹیشن، سپریم لیڈر کے مقربین کے 130 دفاتر اور 48 فوجی اور پاسداران انقلاب کے کیمپ نذرآتش کیے گئے۔