خیبرپختونخوا میں بینکوں سے 20 ارب روپے کے غیر قانونی لین دین کا انکشاف

لین دین کے طریقہ کار سے ظاہر ہوتا ہے اکاؤنٹس میں رقم بغیر کسی معاشی جواز کے رکھی گئی، جسے متعدد مرتبہ جمع کروایا اور نقدی کی صورت میں نکالا گیا، حکام

جمعہ 13 دسمبر 2019 13:08

خیبرپختونخوا میں بینکوں سے 20 ارب روپے کے غیر قانونی لین دین کا انکشاف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 دسمبر2019ء) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) کے کراچی میں موجود شعبہ تفتیش اور انٹیلی جنس نے خیبرپختونخوا کے مالاکنڈ ڈویژن میں بینک اکاؤنٹس میں بغیر ٹیکس کی ادائیگی کے غیر قانونی طریقے سے 20 ارب روپے منتقل کرنے اور نکالنے کے اسکینڈل سے پردہ اٹھادیا۔ٹیکس چوری کی رقم مالاکنڈ ڈویژن میں ہی بٹخیلہ، بونیر اور سوات کے علاقوں میں دیگر بینک اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی جو سال 2014 سے 2018 تک خیبرپختونخوا کا ٹیکس سے مستثنیٰ علاقہ تھا۔

ٹیکس انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ نے مذکورہ اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ بھی درج کردی ہے۔نجی ٹی وی کے مطابق محکمے کے باخبر ذرائع نے بتایا کہ لین دین کے طریقہ کار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان اکاؤنٹس میں رقم بغیر کسی معاشی جواز کے رکھی گئی، جسے متعدد مرتبہ جمع کروایا اور نقدی کی صورت میں نکالا گیا۔

(جاری ہے)

ابتدائی تحقیقات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ رقم 3 قسم کے معاملات میں منتقل کی گئی، جس میں 10 سے 15 افراد ملوث تھے تاہم ذرائع نے ٹیکس چوری اور اسکینڈل میں ملوث افراد کے نام نہیں بتائے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ان افراد کے خلاف اب تک صرف یہ کارروائی کی گئی کہ ان کی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس منسلک کردیے گئے، ایف آئی اے معاملے کی مزید تحقیقات کررہا ہے تاہم ملزمان پہلے ہی ضمانت پر ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اس نتیجے پر پہنچا کہ رقم کی منتقلی کا مقصد ٹیکس سے بچنے کے لیے دولت کو اِدھر سے اٴْدھر بھیجنا تھا، ان لوگوں کے خلاف ٹیکس چوری ثابت ہوئی ہے اور اس ضمن میں تحقیقات اگلے مراحل میں ہے۔

کچھ کیسز میں ٹیکس چوروں نے افسران کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات رکوادی تھیں جسے بالآخر عدالت نے اس درخواست پر بحال کیا کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گرد کے لیے مالی معانت کے کیسز میں استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا حتیٰ کہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں سابق وفاق کے زیر انتظام (فاٹا) اور صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقے (پاٹا) میں بھی نہیں۔

بعدازاں جب عدالت نے حکم امتناع واپس لے لیا تو اب ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ان باقی افراد سے آمدن کے ذرائع کی تفصیلات حاصل کرے گا تاہم یہ بات سامنے آئی کہ ان افراد نے ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ تعاون نہیں کیا اور اس سے قبل بھیجے گئے متعدد نوٹسز پر معلومات فراہم نہیں کیں۔ذرائع کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے پاس بھی ان افراد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جس کا مطلب ہے کہ منتقل کی جانے والی رقم کو ظاہر ہی نہیں کیا گیا تھا۔

انہوںنے کہاکہ بینک سے نقدی کی صورت میں نکالی گئی رقم کے استعمال کے بارے میں جاننے کیلئے بھی ایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور اب ایجنسی اس بات کا تعین کرے گی کہ آیا یہ رقم منی لانڈرنگ یا دہشت گردی کے لیے مالی معاونت سے حاصل کی گئی، اس سلسلے میں ادارے نے اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث افراد سے رابطہ کرلیا ہے۔دوسری جانب ڈائریکٹریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن نے ایک بیان کے ذریعے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ غیر قانونی اور ٹیکس چوری کی رقم دور دراز اور ٹیکس سے مستثنٰی علاقوں کے بینک اکاؤنٹس میں جمع کروائی گئی تاکہ آمدنی کا ذریعہ اور مجرمان کی شناخت پوشیدہ رہے۔