آرمی چیف مدت ملازمت کیس؛ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کے پاس ممکنہ آپشنز

حکومت آرمی چیف مدت ملازمت کیس کے فیصلے کے بعد عدالتی احکامات کے مطابق قانون سازی بھی کرسکتی ہے جب کہ نظر ثانی اپیل بھی دائر کر سکتی ہے

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان پیر 16 دسمبر 2019 17:43

آرمی چیف مدت ملازمت کیس؛ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کے پاس ممکنہ ..
اسلام آباد (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔16 دسمبر 2019ء) سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔جس میں یہ تحریر کیا گیا ہے کہ پارلیمان کو 6 ماہ میں قانون سازی کرنی ہو گی اس کے بعد صدر نیا آرمی چیف لگائیں گے۔آرمی چیف مدت ملازمت توسیع کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب حکومت کے پاس کون سے آپشنز ہیں؟ اسی حوالے سے ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس معاملے میں حکومت کے پاس کئی آپشنز موجود ہیں۔

حکومت فیصلے پر نظر ثانی اپیل بھی دائر کر سکتی ہے،قانون سازی بھی کر سکتی ہے۔چونکہ یہ فیصلہ کچھ دیر قبل ہی آیا ہے اور پوری طرح سے رپورٹ بھی نہیں کیا گیا،حکومت کی طرف سے وجوہاتا کا پوری طرح سے جائزہ لیا جائے گا۔

(جاری ہے)

تفصیلی فیصلے کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہی حکومت کوئی حتمی فیصلہ کرے گی۔فیصلے کے بعد حکومت فیصلہ کرے گی کہ نظر ثانی اپیل دائر کرنی ہے یا پھر عدالتی احکامات کے مطابق قانون سازی کرنی ہے۔

خیال رہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی تنخواہ اور مراعات کا تعین صدر مملکت آرٹیکل 243کے تحت کرتا ہے۔ منتخب نمائندے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کریں۔معاملہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی طرف ہے۔یہ یاد رکھیں کہ ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی۔کیس کا بنیادی سوال قانون کی بالادستی کا تھا۔

منتخب نمائندے اس حوالے سے قانون سازی کریں، قانون کی عدم موجودگی میں راویت کو غیر یقینی دور کرنے کے لیے لاگو کیا جا سکتا ہے۔ آئین کے تناظر میں پارلیمان قانون سازی کے ذریعے معاملہ حل کریں۔ ہماری حکومت قوانین کی ہے یا افراد کی۔ ہمارے سامنے مقدمہ تھا کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع کی جا سکتی ہے۔آرمی چیف کی تقرری، ریٹائرمنٹ اور توسیع کی تاریخ موجود ہے۔پہلی بار یہ معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں آیا۔سماعت کے پہلے روز درخواست گزار عداالت میں پیش نہیں ہوا۔آرمی چیف کی مدر ملازمت میں تین سال کی توسیع دی گئی۔