پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا

پرویز مشرف پر سنگین غداری ایکٹ لاگو نہیں ہوتا۔آرٹیکل 6 کو اٹھارویں آئینی ترمیم میں تبدیل کیا گیا۔ درخواست میں موقف

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعرات 19 دسمبر 2019 13:40

پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 19 دسمبر2019ء) سابق صدر پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔تفصیلات کے مطابق سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کو پھانسی دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔فیصلہ چینلج کرنے کی درخواست محمود اختر نقوی نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جمع کروائی۔درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ پرویز مشرف پر سنگین غداری ایکٹ لاگو نہیں ہوتا۔

آرٹیکل 6 کو اٹھارویں آئینی ترمیم میں تبدیل کیا گیا۔آئین میں اٹھارہویں ترمیم 2010ء میں کی گئی جب کہ پرویز مشرف نے 2007ء میں ایمرجنسی لگائی۔متن میں درج ہے کہ پرویز مشرف نے اپنے اقتدار میں کوئی آئین و قانون شکنی نہیں کی۔پرویز مشرف نے ریفرنڈم کے ذریعے اپنے اقتدار کو آئینی وقانونی حیثیت دی۔

(جاری ہے)

درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ جس شخص پر آئین شکنی کا اطلاق نہیں ہوتا اس پر آرٹیکل 6لاگو نہیں ہوتا۔

خیال رہے کہ منگل کو خصوصی عدالت میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس وقاراحمد سیٹھ کی سربراہی سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔ اگرچہ خصوصی عدالت کی جانب سے علان کیا گیا تھا کہ وہ کیس کا فیصلہ منگل کو سنادیں گے تاہم اس کے باوجود حکومتی پراسیکیوٹر ایڈووکیٹ علی ضیا باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 3 درخواستیں دائر کیں۔

حکومت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کی درخواست دی گئی اور کہا گیا کہ حکومت شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانا چاہتی ہے۔ استغاثہ کی جانب سے کہا گیا کہ پرویز مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں کیونکہ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔اس پر جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دئیے کہ ساڑھے 3 سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں،آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آگئیں۔

جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ گزر چکا ہے۔ جنہیں ملزم بنانا چاہتے ہیں انکے خلاف کیا شواہد ہیں ، کیا شریک ملزمان کے خلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تحقیقات ہوسکتی ہے، ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے مشرف کو ایمرجنسی لگانے کا کہا تھا۔اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ مشرف کی درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں جس پر فیصلہ بھی ہو چکا، ساتھ ہی جسٹس شاہد کریم نے یہ ریمارکس دیے کہ مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے۔

دوران سماعت جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کے لیے 2 ہفتے کی مہلت دی گئی تھی، اس پر استغاثہ نے کہا کہ قانون کے مطابق فرد جرم میں ترمیم فیصلے سے پہلے کسی بھی وقت ہو سکتی۔اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں، کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہی ، 3 افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کورکمانڈوز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی، لہٰذا عدالت کی اجازت کے بغیر فرد جرم میں ترمیم نہیں ہوسکتی۔