Live Updates

اداروں میں تصادم کے خدشے کو پیرا 66 سے جوڑا جارہا ہے، بابر اعوان

وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں کوئی تصادم کا سوچے بھی نہیں،کسی بھی سزا یافتہ شخص کو حکومت باہر جانے کی اجازت نہیں دے گی،حکومت کو کسی کے صحت مند رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ،عدالتوں کو سچ بتائیں،ان ہاؤس تبدیلی کا کوئی جواز نہیں ہے،حکومت مناسب سمجھے گی تو پرویز مشرف کیس پر عدالت جائیگی، میڈیا سے گفتگو

پیر 23 دسمبر 2019 16:05

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 دسمبر2019ء) وزیراعظم کے معاون خصوصی بابر اعوان نے کہا ہے کہ اداروں میں تصادم کے خدشے کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے فیصلے کے پیرا 66 سے جوڑا جارہا ہے،وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں کوئی تصادم کا سوچے بھی نہیں،کسی بھی سزا یافتہ شخص کو حکومت باہر جانے کی اجازت نہیں دے گی،حکومت کو کسی کے صحت مند رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ،عدالتوں کو سچ بتائیں،ان ہاؤس تبدیلی کا کوئی جواز نہیں ہے،حکومت مناسب سمجھے گی تو پرویز مشرف کیس پر عدالت جائیگی۔

پیر کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بابر اعوان معاون نے کہا کہ اداروں کے تصادم کی گفتگو ہورہی ہے کہ ادارے آپس میں لڑپڑیں گے۔بابر اعوان نے کہا کہ اداروں کا تصادم پاکستان میں صرف ایک مرتبہ ہوا ہے، 1997 میں جب سجاد علی شاہ کی کورٹ پر حملہ کیا گیا تھا حملہ کرنے والوں میں سینیٹرز، ایم این ایز، ورکرز اور لیڈرز بھی تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ چلانے کے لیے اور ان کے آئینی و قانونی فریم ورک کے تحت عزت و احترام کے مطابق چلانے کے لیے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں کوئی تصادم کا سوچے بھی نہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ اداروں کے تصادم کے خدشے کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے فیصلے کے پیرا 66 سے جوڑا جارہا ہے، حکومت کا فیصلہ یہ ہے کہ ہم اس کے لیے آئینی اور قانونی راستہ اختیار کریں گے۔معاون خصوصی نے کہا کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل) کے قانون 80 کی دہائی میں بنائے گئے تھے جنہیں 2010 میں تبدیل کیا گیا جس کے مطابق جو سزا یافتہ ہو اسے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

بابر اعوان نے کہا کہ اس میں عمران خان یا پاکستان تحریک انصاف کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا جب ہم نے نواز شریف کو یہ کہا تھا کہ بیماری کی وجہ سے ضمانتی بانڈ دے دیں۔وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ نواز شریف جب باہر گئے تو کسی ہسپتال میں نہیں گئے ابھی تک ان کا علاج شروع ہی نہیں ہوسکا تو یہ ایک طرح سے پاکستان کے ڈاکٹروں، ہسپتالوں اور ٹیسٹ لیبارٹریز پر عدم اعتماد، پاکستان کا سارا نظام جس پر 20 کروڑ لوگ جی رہے ہیں اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ صرف لندن میں نواز شریف کا علاج ممکن ہے ان سے پہلے بھی جو بیمار گئے وہ لندن جا کر صحت یاب ہوجاتے ہیں، حکومت کو کسی کے صحت مند رہنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن عدالتوں کو سچ بتائیں۔بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ہم یہ توقع ضرور کرتے ہیں کہ جو لیڈرشپ کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں ٹھیک بات کرنی چاہیے۔معاون خصوصی نے کہا کہ مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل)سے نکلوانے کے لیے درخواست وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی میں آئی تھی اس کے سامنے بھی یہی قانونی پوزیشن ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی سیاست نہیں، نہ اس وقت کوئی سیاست تھی جب انہوں نے کہا کہ ہم بیمار ہیں وہ خود ہی بتاتے تھے کہ پلیٹلیٹس کی تعداد اتنا اوپر گئی یا نیچے گئی، لندن جاتے ہی وہ کاؤنٹ بند ہوگیا نہ اوپر گیا نہ نیچے گیا کدھر گیا کسی کو نہیں پتا۔بابر اعوان نے کہا کہ حکومت نے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ کسی بھی قیمت پر کسی بھی سزا یافتہ شخص کو حکومت اجازت نہیں دے گی، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ جو ایک اجازت دی گئی دوستوں نے یہ بھی کہا کہ اب ایک نہیں 2 پاکستان ہوگئے دیگر کو بھی اجازت دینی چاہیے۔بابر اعوان نے کہا کہ وہ ایک اسپیشل کیس تھا، مریم نواز نے جو درخواست دی ہے وہ عدالت میں ہے میں اس پر تبصرہ نہیں کرتا لیکن پھر قانون میں ترمیم کرلیں پارلیمنٹ میں آجائیں کہیں ’ جس کو بھی ابا جی سے ملنے کو دل چاہے، اسے جیل سے نکال دیا جائے ملک سے جانے کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس قانون کی موجودگی میں اجازت نہ دینا قانون کی بالادستی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کہا جارہا ہے کہ کوئی اِن ہاؤس تبدیلی آسکتی ہے اور اس کے لیے کہتے ہیں کہ رہبر کمیٹی کو کہہ دیا گیا ہے کہ اِن ہاؤس تبدیلی کا بندوبست کریں۔بابر اعوان نے کہا کہ ان ہاؤس تبدیلی کوئی حلیم کی دیگ نہیں ہے کہ بہت سارے لوگ اس میں مل کر کام کریں کوئی چاول کا دانہ لائے کوئی دال کا دانا لائے۔

انہوںنے کہاکہ آؤٹ ہاؤس یہ ناکام ہوچکے ہیں، ان ہاؤس کا کوئی جواز ہے اور نہ ہی اس کا کوئی موقع ہے۔انہوںنے کہاکہ ایک سوال پوچھا جارہا ہے کہ کیا وفاقی حکومت پرویز مشرف کیس پر عدالت جائیگی،سیاسی عناد پر بنے ہوئے کیس میں اگر حکومت مناسب سمجھے گی تو حکومت کو بھی جانے کی اجازت ہوگی۔اگرچہ شکایت نواز شریف نے شہباز شریف کے مشورے پر دائر کی تھی اور وہ دونوں اب خاموش ہیں، خاموشی کا مطلب ہے کہ ان سے غلطی ہوگئی تھی انہیں کھل کر کہہ دینا چاہیے کیونکہ جس وزارت سے وہ کاغذ نکلا تھا ان کو تو اپنی حکومت میں ساتھ بٹھالیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کہتے ہیں کہ حکومت مدعی ہے اس لیے نہیں جاسکتی جبکہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے جب ایک وفاقی حکومت نے اندرون اور بیرون ملک الزامات کی بنیاد پر نااہل قرار دلوایا تھا اور جب حکومت بدلی تو وفاقی حکومت نے انہیں اہل کروانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اس کے ساتھ متاثرہ فریق بھی عدالت میں جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بحث چل ر ہی ہے کہ وہ ملزم جسے غیر حاضری میں سزا دی جائے وہ سرنڈر کرے گا یا سرنڈر کیے بغیر اس کی اپیل سپریم کورٹ میں سنی جائے گی اس حوالے سے بھی عدالتی فیصلہ موجود ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ’ چونکہ سزا غیرحاضری میں ہوئی تو اپیل بھی غیرحاضری میں سنی جاسکتی ہے‘۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات