رواں سال اغوابرائے تاوان کے 28 واقعات رونما ہوئے، زیادہ تر مغوی رقم کی ادائیگی کے بعد گھروں کو واپس پہنچے

پیر 30 دسمبر 2019 16:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 دسمبر2019ء) سال 2019 کے دوران شہر بھرمیں اغوا برائے تاوان کی28 واقعات رونما ہوئے جن میں سے زیادہ ترمغوی رقم کی ادائیگی کے بعد ہی بحفاظت گھروںکو واپس پہنچے۔تفصیلات کیم طابق 2013 میں کراچی آپریشن کے آغاز کے کچھ سالوں بعد اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میںآئی تاہم اس سال شہر کے پوش علاقوں سے دو نوجوان لڑکیوںکے اغوا نے پورے سسٹم کو ہلاکر رکھ دیا ،دونوں لڑکیوںکے اہل خانہ نے تاوان کی رقم ادا کرکے انھیں رہا کرالیا، پولیس و قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے منہ تکتے رہ گئے۔

تحقیقاتی ٹیمیں ، تفتیشی افسران اور مخبروں کے بچھائے گئے جال تمام کے تمام بے سود ثابت ہوئے اور ملزمان کی گرفتاری توکجاان کے بارے میں معلوم تک نہیں ہوسکا کہ کون سا گروپ اغوا میں ملوث تھا ، پولیس ریکارڈ کے مطابق رواں سال شہر بھر میں مجموعی طوپر 28 وارداتیں ایسی رونما ہوئیں جن میں اغوا کے بعد رہائی کے عوض تاوان کامطالبہ کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

رواں سال رپورٹ ہونے والے واقعات میں جنوری میں اغوا برائے تاوان کی ایک واردات رونما ہوئی ، مئی کے مہینے میں اغوا برائے تاوان کی ایک واردات رپورٹ ہوئی ، جولائی کے مہینے میں چار جبکہ اگست ستمبر اور اکتوبر میں ایک ایک وارداتیں رونما ہوئیں،ماہ مئی میں ڈیفنس کے علاقے سے معروف بلڈر بیٹی کو گھر کے دروازے سے اغوا کیا گیا ،اغواکاروں نے ڈیڑھ کروڑسے زائد تاوان طلب کرکے رہا کیا تاہم پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ہے۔

30نومبر کی شب درخشاں کے علاقے سے دعا منگی کو سب کے سامنے ایک چائے کے ہوٹل سے اغواکرلیا گیا اس دوران ایک نوجوان کو گولی بھی ماری ، واقعے کے بعد لڑکی کی بازیابی کے لیے تمام ادارے حرکت میں آئے تاہم کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی تاہم ایک ہفتے بعد دعا منگی کے اہلخانہ نے اغوا کاروں کو تاوان کی رقم دی اور دعا منگی کی رہاکرالیا تاہم لڑکی کہاں تھی کس کے پاس تھی کسی کو پتہ نہیں چلا، دعا منگی کیس کے بعد ایک واضح تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ اس واقعے کے بعد سے آئی جی سندھ سے لیکر ایک کانسٹیبل تک کسی بھی پولیس افسران او اہلکاروں نے اس واقعے پر کوئی ا?فیشنل موقف نہیں دیا بلکہ تمام افراد نے پراسرار خاموشی اختیار کرلی جو آج تک برقرار ہے، شہر کے پوش علاقوں سے لڑکیوں کا اغوا اور بعد ازاں انکی تاوان کے بعد رہائی اور ملزموں کا تا حال قانون کی گرفت میں نہ آنا قانون نافذکرنے والے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ، اس کے علاوہ بھی اغوا برائے تاوان کے کئی واقعات پیش آئے۔