لاہور ہائیکورٹ کی کارروائی آئین و قانون کی صریح خلاف ورزی ہے، جسٹس وجیہ

مشرف کے وکیل سے زیادہ ان کی حمایت حکومت کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل کر رہا تھا،آرٹیکل 199 کے تحت لاہور ہائی کورٹ کیس سننے کا استحقاق نہیں رکھتا تھا، چیئرمین عام لوگ اتحاد

منگل 14 جنوری 2020 22:25

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 جنوری2020ء) عام لوگ اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ز)وجیہ الدین نے سنگین غداری کیس میں مشرف کی سزا کالعدم قرار دیئے جانے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کی کارروائی آئین و قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کی ساری کارروائی یکطرفہ لگ رہی تھی۔ مشرف کے وکیل سے زیادہ ان کی حمایت حکومت کا ایڈیشنل اٹارنی کر رہا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ عدالتیں اپنے ہی لیول کے ججوں کے بارے میں رٹ کے اجرا سے ہمیشہ احتیاط کیا کرتی ہیں۔ اور خصوصی عدالت بینچ میں تو خود لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج بھی شامل تھے۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ درست تھا یا نہیں، اس مسئلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ فیصلے پر اپیل کی جاسکتی ہے اور یہ معاملہ جب بھی سپریم کورٹ میں جائے گا تو وہاں سے مناسب آئینی اور قانونی نتائج نکلیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ ایک ایسی عدالت کے بارے میں فیصلہ آیا جو تقریبا لاہور ہائی کورٹ کے لیول کی عدالت ہے۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ میں عدالتی روایات اور بنیادی نکات کو نظر انداز کیا گیا، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ حکم لکھانے سے پہلے عدالت نے کہا کہ خصوصی عدالت نے مشرف کا سیکشن 342 کا بیان نہیں لیا تھا اس لئے بھی فیصلہ کالعدم ہے۔

حالانکہ خصوصی عدالت نے ملزم کو کمیشن بھیج کر اور اسکائپ پر بیان ریکارڈ کرانے کی پیشکش کی تھی، لیکن پھر بھی وہ تیار نہیں ہوئے۔ اب عدالت اور کیا کرے۔ ایسی صورتحال پر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر)آصف سعید کھوسہ کا ایک حکم موجود ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ملزم بیان ریکارڈ کرانے سے بھاگ رہا ہو تو معاملے کو وہیں ختم کرکے فیصلہ سنا دینا چاہیئے۔

چیئرمین عام لوگ اتحاد نے کہا کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 199 اعلی عدالتوں کو رٹ جیورسڈِکشن مہیا کرتا ہے۔ یہ ایک صوابدیدی تدبیر ہے۔ جس میں عدالت کا استحقاق ہے کہ اگر رٹ ایشو کرنے کا کوئی کیس بنتا بھی ہے تو حالات اور عدالتی نظائر کے پیش نظر عدالتیں رٹ ایشو نہیں کیا کرتیں۔ آرٹیکل 199 میں یہ بھی طے ہے کہ اگر adequate alternative remedy یعنی اس طرح کی مزید کارروائی جو پہلے ہی سے کسی حکم کے بارے میں موجود ہو۔

تو وہاں پر بھی آرٹیکل 199 کے ماتحت اعلی عدالتیں رٹ ایشو کر نہیں سکتیں۔ وہاں استحقاق کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وہ ایسا کر ہی نہیں کرسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سے بہتر alternative remedy کوئی ہو بھی نہیں سکتی۔ لہذا سنگین غداری کیس جیسے معاملے میں مداخلت عجیب و غریب امر ہے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ میں یہ باتیں کی گئیں کہ اسپیشل کورٹ وزیر اعظم نے اپنے آپ تشکیل دے دیا اور کابینہ سے مشورہ نہیں کیا۔

عدالت میں پیش ہونے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ میں کوئی ایجنڈا آئٹم نہیں تھا۔ کیا ضروری ہے کہ کابینہ یا کوئی ادارہ ایجنڈا کے تابع ہو۔ کوئی بھی ایسا معاملہ جس کی پریذائڈنگ آفیسر اجازت دے وہ کابینہ یا کسی بھی ادارے میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ پھر دیگر بات یہ ہے کہ خصوصی عدالت کے جو ممبران تھے ان کی اگر ترقی ہو گئی، جیسے ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں چلے گئے تو کابینہ کے ذریعے ان کا متبادل مقرر کرنے کی اجازت دی گئی۔

انہوں نے یاد دلایا کہ اسپیشل کورٹ سپریم کورٹ کے حکم پر قائم ہوئی۔ اب جو عدالت سپریم کورٹ کے حکم پر قائم ہو وہاں تو تکنیکی باتیں بالکل بیچ میں نہیں آیا کرتیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں کہا گیا کہ اٹھارہویں ترمیم میں آئین کو معطل رکھنے کے عمل کو سنگین غداری کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آرٹیکل 6 میں پہلے سے موجود پروویژنز اور آئینِ پاکستان کا سب ورژن جیسے اور الفاظ تھے، تو یہ عارضی التوا میں ڈالنا اور دیگر معاملات سب ورژن کے زمرے میں آتے ہیں۔

وہ پہلے ہی وہاں موجود تھے۔ اٹھارہویں ترمیم نے صرف ان کی وضاحت کی ہے۔ عدالت میں آئین کی منسوخی کا تذکرہ بھی ہوا۔ کہا گیا کہ ضیا الحق نے کہا تھا کہ 12 صفحے کا آئینی مسودہ میں جب چاہوں پھاڑ دوں۔ چنانچہ یہ چیز آئین کے سب ورژن کے زمرے میں آتی ہے اور ایمرجنسی کا نفاذ اس زمرے میں نہیں آتا۔ جسٹس وجیہ نے کہا کہ ایمرجنسی اگر آئین کے ماتحت ہو تو بالکل درست ہے۔

لیکن یہ ایمرجنسی ایک فرد واحد پرویز مشرف نے لگائی تھی اور اس کے نتیجے میں مشرف نے اعلی عدالتوں کے تمام ججوں کو گھر بھیج دیا بلکہ گھروں میں قید کردیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں ایسا لگ رہا تھا کہ پرویز مشرف کا وکیل ان کی اعانت کم اور حکومت کی طرف سے پیش ہونے والا ایڈیشنل اٹارنی جنرل ان کی زیادہ حمایت کر رہا تھا۔ لگتا یوں تھا کہ ساری کارروائی یکطرفہ ہو رہی ہے، جس کا ہدف خصوصی عدالت اور اس کا فیصلہ ہے۔

اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ آرڈر پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے تو یقینا وہ حق بجانب ہے۔ سینئر وکیل اے کے ڈوگر نے ایک درخواست دائر کی کہ لاہور ہائی کورٹ کو یہ کیس سننے کا اختیار نہیں ہے۔ اس پر ہائی کورٹ آفس نے اعتراض لگایا۔ وہ معاملہ جب لاہور ہائی کورٹ کی فل بنچ کے پاس پیش ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس بارے میں حکم جاری کریں گے۔

حیرت انگیز طور پر بغیر سنے اور بغیر نوٹس نکالے ہوئے یہ کارروائی کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ میں جو ہوا اس طرح کی کارروائیاں تو مجسٹریٹ کی عدالت اور سول کورٹس میں بھی نہیں ہوتیں۔ ملک کے سب سے پرانے ہائی کورٹ میں اس طرح کی کارروائیاں ہوں گی تو یہ افسوسناک بات ہے۔ بہرحال معاملہ یہاں رکنے والا نہیں۔ اسپیشل کورٹ کا فیصلہ بھی کسی نہ کسی شکل میں سپریم کورٹ جائے گا۔ آگے سپریم کورٹ کا کام ہے۔ میری اپنی رائے میں لاہور ہائی کورٹ کی کارروائی آئین اور قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کی فل بنچ سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔