صوبائی کابینہ کامختلف امن وامان کے واقعات پولیس فائرنگ سے شہریوں کی ہلاکت پر آئی جی سندھ کی خدمات وفاق سے واپس لینے کا مطالبہ

انسپکٹر جنرل آف پولیس صوبے میں جرائم کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں ،متعدد بار ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ، کابینہ

جمعرات 16 جنوری 2020 00:08

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جنوری2020ء) صوبائی کابینہ نے اغوا برائے تاوان بالخصوص لڑکیوں،کار اور موٹر سائیکل چھیننے کے بڑھتے ہوئے واقعات ، معصوم افراد کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت اور صورتحال کو کنٹرول کرنے میں انسپکٹر جنرل آف پولیس کی ناکامی کے باعث وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ موجودہ آئی جی پی کی خدمات واپس لیں اورپولیس افسران کے پینل سے کسی تجربہ کار سینئر پولیس افسر کی سندھ میں تعیناتی کی جائے ۔

ایک نکاتی ایجنڈے پر مشتمل صوبائی کابینہ کا اجلاس وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت آج وزیراعلی ہائوس میں منعقد ہوا۔اجلاس میں چیف سیکریٹری سندھ ، ممتاز شاہ، صوبائی کابینہ کیتمام اراکین، وزیراعلی سندھ کے پرنسپل سیکریٹری ساجد جمال ابڑو، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری قانون نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

کابینہ نے کہا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس صوبے میں جرائم کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں اور انہوں نے متعدد بار ڈسیپلین کی خلاف ورزی کی ہے جس میں فارن مشنز اور سفارت خانوں سے حکومت اور فارن آفس کی اجازت کے بغیر براہ راست رابطے اور براہ راست خط و کتابت شامل ہے۔

واضح رہے کہ آئی جی پولیس نے وزیراعلی کو ایک خط تحریر کیا جس میں ڈی آئی جی خادم رند کی خدمات کو سرینڈر کرنے کا کہاگیا۔کچھ عرصے کے بعد انہوں نے وزیراعلی سندھ کو دوبارہ اس حوالے سے خط لکھا۔جب وزیراعلی سندھ نے ڈی آئی جی خادم رند کی خدمات وفاقی حکومت کو واپس کیں تو آئی جی پولیس نے چیف سیکریٹری کو ایک سیکریٹ خط لکھا اور ان سے ان کے علم میں لائے بغیر ڈی آئی جی کو سرینڈر کرنے پر احتجاج کیا اور اس خط کی کاپی میڈیا کو لیک کی۔

انہوں نے صوبائی حکومت کی پوزیشن سندھ اور پاکستان کے لوگوں کے سامنے خراب کی۔واضح رہے کہ آئی جی پولیس نے موجودہ ایس ایس پی کے نام کی شکار پور کے لیے سفارش کی۔آئی جی پولیس کو بتایا گیا کہ مجوزہ ایس ایس پی صوبے میں بالکل نئے ہیں اور شکار پور قبائلی جھگڑوں کے حوالے سے ایک حساس ضلع ہے ۔ایس ایس پی شکار پور امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہے اور اغوا برائے تاوان کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوا۔

جب ضلعے اور شہر کے لوگوں نے احتجاج شروع کیا تو ایس ایس پی نے معصوم لوگوں کومنشیات کے مقدمات میں گرفتار کرنا شروع کیا اور ایک گرفتار نوجوان پولیس کے تشدد سے ہلاک بھی ہوا۔ ایس ایس پی نے 22 دیہاتیوں کے خلاف اے ٹی سی قوانین کے تحت مقدمہ بھی درج کیا۔ ایک ڈی آئی جی مقدمے کی تحقیقات کررہاتھا اور اس نے بھی ایس ایس پی کی من مانیوں کے خلاف لکھا۔

کابینہ نے کہا کہ ایس ایس پی کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے آئی جی پولیس نے اس کا دفاع کیا اور ایک بار پھر صوبائی حکومت کی پوزیشن کو خراب کیا۔ صوبائی کابینہ نے اس بات کو بھی نوٹ کیا کہ بسمہ،دعا منگی کے اغوا کیسز اور ان کے والدین کی جانب سے تاوان کی رقم کی ادائیگی کے بعد ان کی واپسی ہوئی۔کابینہ نے ارشاد رانجھانی کے ایشو کو بھی اٹھایا جسے رحیم شاہ نے بھینس کالونی میں عوام کے سامنے گولی ماری تھی۔

پولیس نے ارشاد رانجھانی کو اسپتال لے جانے کے بجائے اسے اپنی موبائل میں پولیس اسٹیشن لے آئے ، ایک طرح سے پولیس نے رحیم شاہ کو اسے گولی مارنے کی اجازت دی۔آئی جی پولیس نے پولیس کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے ان کا دفاع کیا جس کے نتیجے میں 4 معصوم قبائلی علاقوں کے پشتون اس کے رد عمل میں لاڑکانہ میں مارے گئے، اس پر وزیراعلی سندھ نے واضح کیا کہ 4 معصوم پٹھانوں کے قاتلوں کو گرفتار کرلیاگیاہے۔

کابینہ نے کہا کہ آئی جی پولیس نے قواعد و ضوابط اور وفاقی حکومت کی ایس او پی کی خلاف ورزی کی اور براہ راست کراچی اور اسلام آباد میں کام کرنے والے فارن مشنز کے ساتھ خط و کتابت کی۔ کابینہ نے متفقہ طور پروفاقی حکومت سے آئی جی پولیس ڈاکٹر کلیم امام کی خدمات واپس لینے کا کہا اور کسی سینئر افسر جس نے سندھ میں خدمات انجام دیں ہوں اسے ان کی جگہ تعینات کرنے کا کہا جس کے لیے صوبائی کابینہ نے متفقہ طور پر 4 ناموں کی سفارش کی۔

وزیراعلی سندھ نے گریڈ 21 اور گریڈ 22 کے 30 پولیس افسران کے ناموں کی فہرست کو پڑھا اور کابینہ نے 4 ناموں کے ایک پینل کو فائنل کیا۔ کابینہ نے غلام قادر تھیبو،مشتاق مہر،ثنا اللہ عباسی اور کامران فضل کے ناموں کو حتمی شکل دی۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ثنا اللہ عباسی کو حال ہی میں خیبر پختونخواہ میں آئی جی پولیس تعینات کیاگیا ہے مگر وہ اس کے باوجود وفاقی حکومت سے درخواست کریں گے۔

کابینہ نے متفقہ طورپر کہا کہ آئی جی پولیس ڈاکٹر کلیم امام کابینہ کا اعتماد کھو چکے ہیں لہذا انہیں لازمی طورپر تبدیل کیاجائے۔ کابینہ نے وزیراعلی سندھ پر زور دیا کہ وہ وزیراعظم سے آئی جی پولیس سندھ کی تبدیلی کی درخواست کریں جیسا کہ کابینہ نے سفارش کی ہے تاکہ صوبے میں امن و امان اور پولیس کی مجموعی کارکردگی بہتر ہوسکے۔کابینہ نے وزیراعلی سندھ سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ آئی جی پولیس ڈاکٹر کلیم امام کے خلاف ان کے مس کنڈیکٹ اور صوبائی قواعد و ضوابط پر عملدرآمد پر ناکامی کے حوالے سے مکمل تفصیلات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھیجیں تاکہ وہ اس کے خلاف ڈسیپلنری ایکشن لیں۔