کسی بھی قسم کی مسلح جدوجہد ملک کے مستقبل کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے،

پیغامِ پاکستان وہ دستاویز ہے جو وطن کے خلاف ہتھیار کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرتی ہے اور ریاست کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کی کوشش کرے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کا ’’اسلام اور جمہوریت: ایک متبادل بیانیہ‘‘ کے موضوع پر ورکشاپ سے خطاب

جمعہ 17 جنوری 2020 18:09

کسی بھی قسم کی مسلح جدوجہد ملک کے مستقبل کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 جنوری2020ء) اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا ہے کہ کسی بھی قسم کی مسلح جدوجہد ملک کے مستقبل کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، پیغامِ پاکستان وہ دستاویزہے جو وطن کے خلاف ہتھیار کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرتی ہے اور ریاست کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کی کوشش کرے، جمہوریت یہی تقاضا کرتی ہے کہ اس کا پرچار ہر سطح پر ہو۔

ان خیالات کا اظہا انہوں نے جمعہ کو یہاں انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل کے باہم اشتراک سے تین روزہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ورکشاپ کا موضوع ’’اسلام اور جمہوریت: ایک متبادل بیانیہ‘‘ تھا۔ انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کے سربراہ مولانا تحمید جان نے اپنے تعارفی کلمات سے ورکشاپ کا باقاعدہ آغاز کیا اور شرکاء کے سامنے یہ بات لائی کہ کس طرح انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کئی سالوں سے علماء کی تربیت کے بابت خدمات سرانجام دے رہی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ علماء بھی جمہوری اقدار کے پرچار میں برابر کے شریک ہوں اور یہ کہ اختلاف رائے کی قدر کرنا ایک پرامن معاشرے کی تشکیل کی ضامن ہے۔ نیشنل انڈومنٹ فار ڈیموکریسی کے سینئر پروگرام آفیسر لی ولسن نے اپنی تقریر میں کہا کہ دنیا بہت پرامن بن گئی، اگر ہم آج کا موازنہ گزشتہ چند برسوں سے کریں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ دنیا میں امن و امان حقیقی معنوں میں آیا ہے اور یہ اس لئے ممکن ہوا ہے کہ دنیا کہ تمام حکومتوں کا میلان جمہوریت کی جانب ہے۔

انہوں نے کہا کہ ممکن ہے جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری افعال وجود میں آئیں جن کا سدّباب جمہوری طرز سے ہی ممکن ہو گا۔ سابق وفاقی وزیر بیرسٹر ظفر اللہ خان نے کہا کہ جمہوریت ایک حکمران سے دوسرے حکمران کو اقتدار کی منتقلی کا سب سے پرامن طریقہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت کی یہی خوبی اس کو ایک عالمگیری حمایت نوازتی ہے۔ خورشید ندیم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسان کو غور و فکر کی نعمت سے نوازا گیا ہے، یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ سوالات کرنے اور تحقیق کی روایات ہمیشہ برقرار رہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ عمل ایک ایسے معاشرے کو پروان چڑھائے گا جوکہ معقولیت پسندی کی بنیاد پر ہو گا اور یقیناً یہی سوچ و بچار جمہوریت کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو گی۔ ظفر اللہ خان نے اس بات پر زور دیا کہ مسائل درپیش ہونے کی صورت میں آئین کی طرف رجوع کرنا چاہئے کیونکہ آئین میں متعدد مسائل کا حل موجود ہے۔ صدارتی اور پارلیمانی طرز حکومت کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمانی طرز حکومت ہی دراصل جمہوری طرز حکومت ہے۔

ڈاکٹر اکرام الحق یاسین نے کہا کہ چونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ تمام مذہبی سکالرز جن کا تعلق خواہ کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو وہ باہمی مکالموں میں شرکت کریں جس کے ذریعے سے جمہوری اقدار اور اصولوں کو فروغ ملے گا۔ شرکاء کو اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار سے متعلق بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کونسل سالوں سے اسی کوشش میں ہے کہ قوانین کو اسلامائز کیا جائے۔