نیب افسران کو بدعنوانی کی روک تھام کیلئے کرپشن فری پاکستان پر ایمان کی پالیسی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے،

فرانزک سائنس لیبارٹری سے انکوائری اور انویسٹی گیشن کے معیار میں بہتری آئی ہے، احتساب عدالتوں میں نیب کے مقدمات میں سزا کی شرح 70 فیصد ہے، چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال کا نیب افسران سے خطاب

پیر 20 جنوری 2020 17:09

نیب افسران کو بدعنوانی کی روک تھام کیلئے کرپشن فری پاکستان پر ایمان ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 جنوری2020ء) قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر)جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب افسران کو بدعنوانی کی روک تھام کیلئے نیب کی کرپشن فری پاکستان پر ایمان کی پالیسی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، نیب کی فرانزک سائنس لیبارٹری قائم ہونے سے انکوائری اور انویسٹی گیشن کے معیار میں بہتری آئی ہے، احتساب عدالتوں میں نیب کے مقدمات میں سزا کی شرح 70 فیصد ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیب ہیڈ کوارٹرز میں نیب افسران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیب بدعنوانی سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے پرعزم ہے، نیب افسران بدعنوانی کے خلاف جنگ کو قومی فرض سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے آئین ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں بدعنوانی اور اقرباء پروری کو بڑی برائیاں قرار دیا، یہ حقیقت میں زہر ہے، ہمیں اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ قومی احتساب بیورو کو مؤثر اور مربوط طریقہ سے بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے قائم کیا گیا تھا، یہی پس منظر ہے جس کے باعث نیب قوم کو بدعنوانی سے بچانے کیلئے اپنے مشن کی تکمیل کیلئے کوشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کی آپریشنل میتھڈالوجی تین مرحلوں، شکایت کی جانچ پڑتال، انکوائری اور انویسٹی گیشن پر مشتمل ہے، نیب افسران کو بدعنوانی کی روک تھام کیلئے نیب کے کرپشن فری پاکستان پر ایمان کی پالیسی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب افسران کی محنت، حوصلے، شفافیت اور میرٹ کو معتبر قومی اور بین الاقوامی ادارے سراہ رہے ہیں، نیب افسران بدعنوان عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور ان سے معصوم پاکستانیوں کی لوٹی گئی رقم برآمد کرنے کیلئے اپنی کوششوں کو دگنا کریں۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کا کوئی ایک افسر یا اہلکار کا اثر و رسوخ کی بناء پر مقدمات بند کرنا ناممکن ہے کیونکہ نیب میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا نظام وضع کیا گیا ہے جس میں دو انویسٹی گیشن افسران، لیگل کنسلٹنٹ اور مالیاتی ماہرین شامل ہوتے ہیں جو کہ متعلقہ ایڈیشنل ڈائریکٹر سے مل کر ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں تاکہ شفافیت اور غیر متعصبانہ انداز میں انکوائری اور انویسٹی گیشن کو نمٹایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں نیب کی پہلی فرانزک سائنس لیبارٹری قائم ہونے سے نیب کی انکوائری اور انویسٹی گیشن کے معیار میں بہتری آئی ہے جس میں ڈیجیٹل فرانزک، سوالیہ دستاویزات اور فنگر پرنٹ کے تجزیہ کی سہولت موجود ہے جس سے انکوائریوں اور انویسٹی گیشنز سے متعلق معیاری اور ٹھوس شواہد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے مقداری اور معیاری بنیادوں پر تمام علاقائی بیوروز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن کا نظام وضع کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب سارک اینٹی کرپشن فورم کا چیئرمین ہے، یہ نیب کی شاندار کارکر دگی کا اعتراف ہے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب نے 2019ء کے دوران بدعنوان عناصر سے لوٹے گئے 153 ارب روپے وصول کرکے قومی خزانہ میں جمع کرائے ہیں جبکہ احتساب عدالتوں میں نیب مقدمات میں سزا کی شرح 70 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب آرڈیننس 1999ء میں لوٹی گئی رقم کی وصولی پر زور دیا گیا ہے، نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 328 ارب روپے وصول کرکے قومی خزانہ میں جمع کرائے ہیں، نیب نے بدعنوانی کے خلاف جنگ میں انفورسمنٹ پر مبنی سوچ اختیار کی ہے، لوگوں کو بدعنوانی کے مضر اثرات سے آگاہ کرنے کیلئے انفورسمنٹ کے علاوہ آگاہی اور تدارک کی سرگرمیوں پر بھی توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔