سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس

اداروں کو قانون کے مطابق ورکنگ پیپرز فراہم کرنے کی ہدایت

منگل 21 جنوری 2020 16:28

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 جنوری2020ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر ہدایت اللہ کی صدارت میں منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینیٹرز احمد خان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی، میر محمد یوسف بادینی، ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، آغا شاہ زیب درانی، بہر ہ مندخان تنگی کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت موصلات، چیئرمین این ایچ اے کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں سینیٹر بہرہ مند خان تنگی کے 6 جنوری 2020ء کو سینیٹ اجلاس میں پیش کئے گئے بل نیشنل ہائی ویز سیفٹی ترمیمی بل 2019ء، سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ کے 8 مئی 2019ء کو سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے معاملہ کے حوالہ سے ذیلی کمیٹی کی رپورٹ، اسلام آباد، پشاور موٹروے کے سروس ایریا پر غیر معیاری اور مہنگی اشیاء کی فروخت، رشکئی سروس ایریا پر باتھ رومز کی صفائی کی ناقص صورتحال، ایم ون اور ایم 2 ٹولز پلازہ پر ٹریفک کے بے تحاشا رش کے علاوہ قائمہ کمیٹی کے 12 اکتوبر 2012ء کو ہونے والے اجلاس میں 58 ملازمین کو مستقل کرنے کی سفارش پر عملدرآمد کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ ورکنگ پیپرز کی بروقت عدم فراہمی کی وجہ سے اراکین کمیٹی کس طرح ایجنڈے پر بحث کر سکتے ہیں۔ کمیٹی کے ایجنڈے میں انتہائی اہم چیزیں ہیں بغیر معلومات کے بحث نہیں کی جا سکتی۔ ادارے بروقت ورکنگ پیپرز پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کو کیوں فراہم نہیں کرتے، احتجاجاً دو ایجنڈوں کو آئندہ اجلاس کیلئے مؤخر کرتے ہیں۔

سینیٹر بہرہ مند خان تنگی کا بل نیشنل ہائی ویز سیفٹی ترمیمی بل 2019ء انتہائی اہمیت کا حامل ہے، متعلقہ وزیر اور سیکرٹری کی موجودگی میں بل کا جائزہ لیا جائے گا۔ سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ میرا بل پاکستان کے بچوں کے مستقبل کے متعلق ہے، انتہائی اہمیت کا حامل بل ہے مگر سیکرٹری مواصلات کمیٹی اجلا س میں شرکت نہیں کرتے، اجلاس کے دن وہ بیمار ہو جاتے ہیں۔

قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ قانون کے مطابق ادارے ورکنگ پیپرز فراہم کریں ورنہ پارلیمنٹ کی کمیٹی اپنا اختیار استعمال کرے گی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ ذیلی کمیٹی کی رپورٹ کا گزشتہ اجلاس میں تفصیلی جائزہ لیا جا چکا ہے، اراکین کمیٹی کی اجازت سے اس کو اختیار کر لیتے ہیں۔ رشکئی سروس ایریا کے باتھ رومز کی ناقص صفائی کی صورتحال کے حوالہ سے کمیٹی کو چیئرمین این ایچ اے نے آگاہ کیا کہ یہاں 12 باتھ رومز ہیں، پشاور اور اسلام آباد کے درمیانی پوائنٹ ہونے کی وجہ سے نماز کے اوقات میں بہت زیادہ رش بڑھ جاتا ہے، سابق ٹھیکیدار کا ٹھیکہ 30 جون کو ختم ہو جائے گا، نئے ٹھیکہ میں اضافی باتھ رومز اور دیگر بہتری کی چیزیں شامل کر لی جائیں گی۔

انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ انڈس پر 7 طرح کے حکم امتناعی حاصل کئے گئے تھے اب باقی ایک رہ گیا ہے۔ دریا ئے کابل سمیت ایک اور جگہ پر بھی سروس ایریا بنائے جائیں گے تا کہ رش کو کم کیا جا سکے۔ سینیٹر بہر ہ مند خان تنگی نے انکشاف کیا کہ موٹرویز پر قائم سروس ایریا میں گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے والے غریب لوگوں سے ٹھیکیدار 60 ہزار مہینہ وصول کرتا ہے جو ظلم و زیادتی ہے اس کی انکوائری کی جائے۔

قائمہ کمیٹی نے موٹرویز پر قائم سروس ایریاز میں فروخت کی جانے والے غیر معیاری اور مہنگی اشیاء کا بھی سخت نوٹس لیا۔ چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ اسلام آباد اور پشاور موٹروے پر قائم سروس ایریاز پر مہنگی اور غیر معیاری اشیاء فروخت کی جاتی ہیں ان کا تدارک کیوں نہیں کیا جاتا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ متعلقہ ڈی سی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ریٹ لسٹ مقرر کرے۔

این ایچ اے ٹیم نے شکایات پر جرمانے بھی کئے ہیں۔ سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ 200 کی چیز کو 900 میں فروخت کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ لوگوں نے ایم ٹیگ کو زیادہ قبول نہیں کیا اور لوگ اپنا کارڈ چارج نہیں کرتے اور غلط لائن میں کھڑے ہو کر رش کا سبب بنتے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے تجویز دی کہ ایم ٹیگ والوں کو کوئی رعایت دی جائے تو بہتری لائی جا سکتی ہے۔

ملتان سکھر موٹروے پر پٹرول پمپس اور سروس ایریاز نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو درپیش مشکلات کے حوالہ سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 6 سروس ایریاز اور3 پٹرول پمپس ایوارڈ ہو چکے ہیں، 2 ماہ میں مکمل ہو جائیں گے۔ کنسلٹنٹ کی58 ملازمین کو مستقل کرنے کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہمارے 2060 کنٹریکٹ ملازمین کو خورشید شاہ اور ایک دوسری کمیٹی نے مستقل کر دیا ہے، ان 58 ملازمین کا کیس ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے رکھا تو بورڈ نے فیصلہ دیا کہ کنسلٹنٹ اور ٹھیکیدار کے ملازمین کو مستقل نہیں کیا جا سکتا اور ہو سکتا ہے کہ یہ ملازمین اب ادارے میں نہ بھی ہوں جس پر سینیٹر میر محمد یوسف بادینی نے کہا کہ یہ 58 ملازمین این ایچ اے ہیڈ آفس میں کام کر رہے ہیں، اب یہ عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے دوسرے محکموں میں کام نہیں کر سکتے۔

قائمہ کمیٹی کو 17 اکتوبر 2019ء کو کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد بارے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ قائمہ کمیٹی نے صوبہ بلوچستان میں حالیہ شدید برف باری کے دوران این ایچ اے ٹیم کی برف ہٹانے اور لوگوں کو ریلیف دینے کے کام کو سراہا۔