رواں مالی سال پنجاب کے عوام کو سستے آٹے کی فراہمی کیلئے گندم پر 71 ارب روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے، پنجاب میں 2.3 ملین میٹرک ٹن گند م کے ذخائرہ موجود ہیں،پنجاب بڑا بھائی ہونے کے ناطے دوسرے صوبوں کو بھی گندم فراہم کر رہا ہے،

حکومت 1375 روپے فی من کے حساب سے فلور ملوں کو گندم دے اور وہ مہنگاآٹا فروخت کریں ،یہ کہاں کا انصاف ہے،اگر ہم عوام کو سستے داموں آٹے کی فراہمی کیلئے گندم پر اربوں روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں تو حکومت پوچھنے کا بھی حق رکھتی ہے،پنجاب میں 894 رجسٹرڈ فلور ملیں ہیں جن میں سے 814 فلور ملیں چل رہی ہیں،مافیاز ہر سیزن میں دیہاڑی لگاتے رہے ہیں،اب ایسا نہیں ہوگا، عوام کو آٹا اور دیگر اشیاء ضروریہ کی مقرر ہ نرخوں پر فراہمی کیلئے آخری حد تک جائیں گے ،سابق حکمرنوں کی طرح شعبدہ بازی نہیں ہوگی، صوبائی وزیر صنعت میاں اسلم اقبال کا پریس کانفرنس سے خطاب

منگل 21 جنوری 2020 23:27

لاہور۔21 جنوری(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 جنوری2020ء) صوبائی وزیر صنعت وتجارت میاں اسلم اقبال نے کہا ہے کہ رواں مالی سال پنجاب کے عوام کو سستے آٹے کی فراہمی کے لئے گندم پر 71 ارب روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے۔پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس نے رواں سیزن میں کسانوں سے گند م خریدی ہے اور پنجاب میں 2.3 ملین میٹرک ٹن گند م کے ذخائرہ موجود ہیں۔

پنجاب بڑا بھائی ہونے کے ناطے دوسرے صوبوں کو بھی گندم فراہم کر رہا ہے۔حکومت 1375 روپے فی من کے حساب سے فلور ملوں کو گندم دے اور وہ مہنگاآٹا فروخت کریں ،یہ کہاں کا انصاف ہے۔اگر ہم عوام کو سستے داموں آٹے کی فراہمی کے لئے گندم پر اربوں روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں تو حکومت پوچھنے کا بھی حق رکھتی ہے۔پنجاب میں 894 رجسٹرڈ فلور ملیں ہیں جن میں سے 814 فلور ملیں چل رہی ہیں۔

(جاری ہے)

ایسی بھی ملیں ہے جو سارا سال بند رہتی ہیں اور اپنا گند م کا کوٹہ باہر فروخت کر دیتی ہیں۔عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے اور ہم عوام کے حقوق کا تحفظ ہرقیمت پر کریں گے۔مافیاز ہر سیزن میں دیہاڑی لگاتے رہے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔وزیر اعلی پنجاب کا واضح پیغام ہے کہ عوام کو آٹا اور دیگر اشیاء ضروریہ کی مقرر ہ نرخوں پر فراہمی کے لئے آخری حد تک جائیں گے اورسابق حکمرنوں کی طرح شعبدہ بازی نہیں ہوگی۔

صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال نے ان خیالات کا اظہار منگل کے روز ڈی جی پی آر آفس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔صوبائی وزیر اطلاعات وثقافت فیاض الحسن چوہان اور وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری بھی اس موقع پر موجود تھے۔صوبائی وزیر نے کہا کہ سابق حکومت کے دور میں آخری رمضان ا لمبارک کے دوران رمضان بازاروں میں 22 دنوں میں سوا نو ارب روپے کی سبسڈی آٹے پر دی گئی جبکہ ہماری حکومت نے رمضان المبارک کے دوران 2.33 ارب روپے کی سبسڈی دی اور اس طرح غریب قوم کے سواسات سو کروڑ روپے مافیاز کی جیبوں میں جانے سے بچائے جس سے نام نہاد فلور ملوں کو تکلیف ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے بلکہ مافیاز کے خلاف لڑیں گے۔غریب عوام کے خون پسنے کے کمائی پہلے ضائع ہونے دی اور نہ آئندہ ضائع ہونے دیں گے۔نام نہاد فلور ملز ایسوسی ایشن حکومت اور سٹیٹ بنک سے ریبیٹ لیتی رہی ہے ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔سب سے پہلے عوام کی خوراک کی ضروریات پوری کریں گے کیونکہ ہم عوام کو جواب دہ ہے کسی مافیا کو نہیں۔

حکومت سے رعائتی نرخوں پر گندم حاصل کر کے بازاروں اور چکیوں پر فروخت کرنے والوں نے عوام کا استحصال کیا ہے یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ان کے مفادات پر زد پڑی ہے تو انہیں تکلیف ہوئی ہے۔حکومت سے رعائتی نرخوں پر گندم حاصل کرنے والی فلور ملیں پاپند ہیں کہ وہ100 کلوگرام کی حاصل کی گئی ایک بوری گندم کا 60 کلو آٹا،24 کلو میدہ اور 16 کلو چوکر بنائیں لیکن یہ ملیں ایسا نہیں کر رہی تھی یہ 30 فیصد آٹا اور 70 فیصد میدہ بنا رہی تھی۔

جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے واویلا شروع کردیا۔حکومت عوام کے مفادات کی محافظ ہے اور ہر قیمت پر اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔صوبائی وزیر نے کہا کہ حکومت نے رجسٹرڈ چکیوں کو روزانہ 500 کلو گرام رعائتی نرخوں پر گندم فراہمی کا فیصلہ کیا ہے ، یہاں آٹا 42 سے 45 روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت ہوگا اور چکیوں کو گند م کی فراہمی سے شروع کر دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلور ملیں 15 کلو آٹے کے تھیلے بنا کر مہنگے داموں فروخت کررہی تھیں، جب 15 کلو کے تھیلے بند کئے گئے تو نام نہاد فلور ملز ایسوسی ایشن کو اس کی بھی تکلیف ہوئی۔جب ان کے خلاف گھیرا تنگ ہوا اور ان کے مفادات پر زد پڑی تو انہوں نے میرے خلاف بولنا شروع کر دیا۔انہوں نے کہا کہ ہماری نہ توملیں ہیں اور نہ ہی آٹے کی چکیاں، جب 2014 میں کنفلیکٹ آف انٹرسٹ کا قانون آیا تو میں اپنے ذاتی کاروبار کے شیئر بیج کر کاروبار سے باہر نکل گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی کابینہ کا ممبر ہونے کے ناطے عوام کے مفادات کا تحفظ میری ذمہ داری ہے اور میں یہ ذمہ داری پوری کروں گا۔