بلوچستان میں تعلیمی سہولیات کا فقدا ن ہے، میرعبدالصمدبروہی ودیگر

بدھ 22 جنوری 2020 23:38

خضدار (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 جنوری2020ء) میر عبدالصمد بروہی سیاسی و سماجی رہنماء، میر اشرف مینگل سیاسی رہنماء،ایڈوکیٹ عید محمد سیاسی رہنماء، میر ابرار مینگل،میر عالم فراز مینگل، محمد اعظم گرگناڑی ودیگر نے کراچی پریس کلب میں پرہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے علم میں لانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان ایک غریب و پسماندہ صوبہ ہے جہاں تعلیمی سہولیات کا فقدا ن ہے،وہاں کی بچے اور بچیاں اپنی تعلیم اس لیئے جاری نہیں رکھ سکتے ہیں کہ ان کے لئے علمی مواقع کی کمی ہے۔

خضدار جو کہ بلوچستان کا ایک اہم و مرکزی مقام ہے یہ جھالاوان کے صدر مقام ضلع ہے مکران ڈویژن،نصیرآباد ڈویژن، قلات ڈویژن سمیت تمام ڈویژنز، اضلاع و علاقوں کے لئے سینٹرل اور جنکشن کی حیثیت رکھتا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں پر سابق دورِ حکومت میں ایک جنرل یونیورسٹی کا اعلان اور اس کے لئے فنڈز مختص کردیا گیا تھا،یہ جنرل یونیورسٹی خضدار میں عظیم جامعہ شہید سکندر زہری یونیورسٹی کے نام سے اپنے تکمیل کے مراحل میں ہے اور اس پر ستر سے اسی فیصدتک کام مکمل ہوچکا ہے۔

یہ عالمی معیارکے مطابق بننے والی جامعہ میں ستر مضامین پڑھانے کاپلان ہے اور یہ پورے ساؤتھ بلوچستان کی نئی نسل کے لئے تعلیمی ادارہ بننے جارہی ہے۔جب اس تعلیمی منصوبے کی ابتداء ہوئی تھی تو بلوچستان کے عوام نے بے حد خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ ان کے لئے ایک پوسٹ گریجویٹ تعلیمی ادارہ بن رہا ہے اور تعلیمی مواقع کی ضرورت کافی حد تک پوری ہوگی۔

آپ کے علم میں یہ بات لانا چاہتے ہیں کہ موجودہ بلوچستان حکومت نے 7جنوری کو ایک سفارش اور تجویز مشاورت کے لئے بھیجی ہے کہ شہید سکندرزہری یونیورسٹی خضدار کو ختم کرکے وہاں پر بننے والے میڈیکل کالج کو اس میں ضم کردیا جائے۔ بلوچستان حکومت کی یہ سوچ اور یہ تجویز نہ صرف ساؤ تھ بلوچستان بلکہ پورے بلوچستان کے عوام کے لئے کسی بھی تعلیمی سانحہ سے کم نہیں ہے۔

ایک ایسی جامعہ کہ جس کی تعمیر مختصر مدت میں ستر سے اسی فیصد تک مکمل ہوچکی ہے جہاں اربوں روپے لگے ہیں اس تعلیمی ادارے کو کیسے میڈیکل کالج میں ضم کیا جاسکتا ہے، خضدار جھالاوان سمیت آس پاس کے علاقوں کو جنرل یونیورسٹی کی سہولت پہلے سے میسر نہیں ہے بچے اور بچیاں گریجوٹ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مذید تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے ہیں دوسرے شہروں میں وہ اس لیئے تعلیم حاصل کرنے نہیں جاسکتے ہیں کہ ایک تو قبائلی روایات آڑے آتے ہیں والدین اپنی بچیوں کو اپنے شہر سے دوسرے شہر میں جانے نہیں دیتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ بلوچستان کے لوگ مالی حیثیت بھی نہیں رکھ سکتے ہیں اور ان کے بچے رہائشی اور تعلیمی اخراجات پورے نہیں کرسکتے ہیں اس لیئے انہیں تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑتا ہے۔

سابق حکومت نے انہی ضرورتوں کو دیکھ کر یہاں ایک جامعہ قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا تاہم موجودہ حکومت بقلم یک جنبش اتنے عظیم تعلیمی منصوبے کو پل بھر میں ختم کرنا چاہتی ہے۔ آپ حضرات کے علم میں لانا چاہونگا کہ جس میڈیکل کالج کو بلوچستان حکومت، خضدار شہید سکندر یونیورسٹی میں ضم کرنا چاہتی ہے اس میڈیکل کالج پر سوا ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں اور اس کی اپنی عمارتیں بن چکی ہیں جس ادارے پر خطیر رقم خرچ ہو اور اسے دوسرے تعلیمی ادارے میں ضم کرنا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے یا حکومت کرپشن چھپانا چاہ رہی ہے اور یا کہ انہیں بچوں کی تعلیم سے کوئی دلچپسی ہے، عمارتیں بناؤ اور پھر مٹاؤ کی پالیسی پر گامزن ہے آج خضدار سمیت پورے بلوچستان میں حکومت کے اس ممکنہ فیصلے کے خلاف وہاں سیاسی جماعتیں، طلباء تنظیمیں، سول سوسائیٹی کے نمائندے تعلیم دوست طبقات احتجاج پر ہیں اور اس کی بھر پور مخالفت کی جارہی ہے۔

ہم بھی اس فیصلے پر کافی حد تک دل برداشتہ ہیں اور اس تحریک کا حصہ بننا چاہتے ہیں کہ حکومت مذید تعلیمی ادارہ نہیں دے سکتی ہے تو کم از کم ان تعلیمی اداروں پر تلوار نہ کھینچے کہ جو معرض وجود میں آچکے ہیں اور تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ ہم حکومت بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس غیر منصفانہ اور متعصبانہ فیصلے کو واپس لیکر شہید سکندر یونیورسٹی خضدار کو فوری طور پر پائیہ تکمیل تک پہنچائے وہاں ایم اے اور ایم ایس سی کی کلاسز کا اجراء کیا جائے جامعہ کے لئے وائس چانسلر اسٹاف اور پروفیسرز کی تعیناتی عمل میں لائی جائے اگر حکومت اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہے توحکومت کے اس فیصلے کے خلاف ہر فورم کواستعمال کرکے بھر پور احتجاج کیا جائیگا ۔