پاکستان صرف امن کا شراکت دار ہے، ہم کبھی بھی کسی اور کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے،

امن و استحکام کے بغیر پاکستان کی معیشت ترقی نہیں کر سکتی، پاکستان امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کے خاتمہ کیلئے ذمہ دارانہ اور افغانستان میں قیام امن میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 100 ارب ڈالر کا اقتصادی نقصان اٹھانا پڑا اور 70 ہزار پاکستانی شہید ہوئے،معاشی استحکام کیلئے حکومت کو مشکل فیصلے کرنے پڑے جس کے نتیجہ میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ، روپے کی قدر مستحکم ہوئی ، سٹاک مارکیٹ نے ترقی کی،پاکستان کی 21 کروڑ آبادی میں 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جو معاشی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، پاکستان بھرپور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے جنہیں ہم بروئے کار لانے پر توجہ دے رہے ہیں ، ہم ملکی پیداوار بڑھانے کیلئے سی پیک کے تحت چین سے زرعی شعبہ میں تعاون حاصل کر رہے ہیں،افغانستان میں امن سے پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں سے توانائی کے بھرپور وسائل سے استفادہ کر سکتا ہے اور مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے وزیر اعظم عمران خان کا ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب

بدھ 22 جنوری 2020 23:52

ڈیووس ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 جنوری2020ء) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان صرف امن کا شراکت دار ہے، ہم کبھی بھی کسی اور کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، امن و استحکام کے بغیر پاکستان کی معیشت ترقی نہیں کر سکتی، پاکستان امریکہ ایران کے درمیان کشیدگی کے خاتمہ کیلئے ذمہ دارانہ اور ہمسایہ ملک افغانستان میں قیام امن میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

بدھ کو ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے ملک کی اقتصادی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت کو ورثہ میں بدترین معیشت ملی، معاشی استحکام کیلئے حکومت کو مشکل فیصلے کرنے پڑے جس کے نتیجہ میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا اور روپے کی قدر مستحکم ہوئی جبکہ سٹاک مارکیٹ نے ترقی کی۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے کہا کہ عالمی بینک کے تخمینہ کے مطابق ایک سال کی مدت میں کاروبار میں آسانیوں میں 28 فیصد بہتری آئی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 21 کروڑ آبادی میں 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ملک کی معاشی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے نوجوانوں کو اپنا روزگار اور کاروبار شروع کرنے میں مدد دینے کیلئے سکل ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغاز کیا اور نوجوانوں کی اپنے کاروبار شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔

توقع ہے کہ نوجوان ملکی معیشت کی ترقی کیلئے بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ کام کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان بھرپور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے جہاں سونے، تانبے سمیت کوئلہ اور دیگر قیمتی معدنیات پائی جاتی ہیں اور ہم انہیں بروئے کار لانے پر توجہ دے رہے ہیں اور ان وسائل کے ساتھ نہ صرف ہم ملک کو بھرپور ترقی دے سکتے ہیں بلکہ قرضہ بھی اتار سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زرخیز زمین ہے، ہم ملکی پیداوار بڑھانے کیلئے سی پیک کے تحت چین سے زرعی شعبہ میں تعاون حاصل کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا انتہائی اہم جغرافیائی سٹرٹیجک محل وقوع ہے، افغانستان میں امن سے پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں سے توانائی کے بھرپور وسائل سے استفادہ کر سکتا ہے اور مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے ترقی اور خوشحالی حاصل کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج گورننس کی بہتری کیلئے ریاستی اداروں میں اصلاحات لانا ہے اور اس سلسلہ میں کام جاری ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے حکومتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور 2013ء میں خیبرپختونخوا میں ایک ارب پودے لگائے تاکہ گلوبل وارمنگ اور آلودگی پر قابو پایا جا سکے اور 2018ء میں مرکز میں حکومت بنانے کے بعد ہم نے پاکستان میں 10 ارب پودے لگانے کا منصوبہ شروع کیا ہے تاکہ ملک کو سرسبز اور ماحول دوست بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ حکومتوں میں لاہور میں 70 فیصد درخت کاٹ دیئے گئے جس سے لاہور اور ہمارے کئی شہر اس سے بری طرح متاثر ہوئے، ہم نے شجرکاری مہم میں مقامی خواتین کو بھی شامل کیا ہے اور نرسریاں لگانے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے یہ بات اہم ہے کہ گلوبل وارمنگ سے بچنے کیلئے پاکستان میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ شہروں میں آلودگی کا خاتمہ کیا جا سکے۔

وزیراعظم نے کہا کہ امن و استحکام کے بغیر پاکستان کی معیشت ترقی نہیں کر سکتی، 80ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد پاکستان کو شدت پسند گروپوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جس سے پاکستان میں کلاشنکوف کلچر اور منشیات کو فروغ ملا اور ہماری ترقی کی رفتار رک گئی، نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 100 ارب ڈالر کا اقتصادی نقصان اٹھانا پڑا اور 70 ہزار پاکستانی شہید ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستان محفوظ ملک بنا، سکیورٹی میں بہتری آئی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی آمد شروع ہو گئی، 2019ء پاکستان کا محفوظ ترین اور امن کا سال تھا، ملک میں پہلی بار سیاحت کو زیادہ فروغ ملا، سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ سیاحت کی صنعت کی بھرپور صلاحیت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے پاکستان کے پہاڑوں سے لگائو ہے، پاکستان میں بلند ترین چوٹیاں ہیں اور مختلف عقائد کے مذہبی مقامات ہیں، پاکستان میں مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سیاحت کے شعبہ میں مدعو کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان بحران کا کوئی فوجی حل نہیں، اسے صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے، جنگ شروع کرنا آسان ہے اور یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ جنگ کب ختم ہو گی، ہم افغانستان میں امن و استحکام چاہتے ہیں، امن نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطہ کیلئے ناگزیر ہے، ہم چاہتے ہیں کہ طالبان اور افغان حکومت مذاکرات شروع کرے، افغانستان میں قیام امن کا یہی واحد راستہ ہے۔

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہم امریکہ اور ایران میں کشیدگی ختم کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں، امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کیلئے نقصان دہ ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایران اور سعودی عرب کے مابین بھی کشیدگی کم کرنے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ ملک میں تعلیمی نظام سے متعلق انہوں نے کہا کہ پاکستان میں طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمہ کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں اور یکساں نصاب وضع کر رہے ہیں، تعلیمی نظام میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔