”20سال تک ہم نے عمران خان کی غزلیں سُنیں، اب اُنہیں ہمارا کلام سُننا ہو گا“

معروف تجزیہ کار نے وزیر اعظم کے میڈیا اور اخبارات سے متعلق متنازعہ گفتگو پر تنقید کر ڈالی

Muhammad Irfan محمد عرفان ہفتہ 25 جنوری 2020 11:07

”20سال تک ہم نے عمران خان کی غزلیں سُنیں، اب اُنہیں ہمارا کلام سُننا ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 25جنوری 2020ء) ”20 سال تک ہم نے عمران خان کی غزلیں سُنیں، اب اُنہیں ہمارا کلام سُننا ہو گا“ ۔ معروف صحافی اورتجزیہ کار ضیغم خان نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں وزیر اعظم عمران خان کے گزشتہ دِنوں پاکستانی میڈیا اور اخبار کے حوالے سے متنازعہ گفتگو پر اُن پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی نے کہا ہے کہ شاعر مشاعرے میں اپنی غزلیں تو سُنا لیتے ہیں مگر جب سُننے کی باری آتی ہے تو اپنے بیاض بغل میں دبا کر چلتے بنتے ہیں۔

20 سال تک ہم نے عمران خان صاحب کی غزلیں سُنی۔ کس کو انہوں نے بخشا۔ کونسا اہم سیاست دان ہے، کونسی سیاسی پارٹی ہے، کونسا سرکاری افسر ہے، جو ان کے شر اور ان کی زبان سے محفوظ رہا۔ اور جب ان کی سُننے کی باری آئی تو اب یہ بیاض بغل میں دبا کر جانے لگے ہیں۔

(جاری ہے)

بھئی ایسا تو نہیں ہو گا۔ اب آپ کچھ بھی کر لیں، کتنی پابندیاں لگا لیں، کتنی زبانیں بندی کر لیں، کتنا دھمکا لیں، یہ نہیں ہو گا۔

آپ کانوں کو جتنا بند کریں گے، یہ ڈھول اُتنا اُونچا ہوتا جائے گا۔ اور آپ کو مزید سُننے پر مجبور ہو گا۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ وزراء کو چلہ کشی کا مشورہ دے رہے ہیں یا عوامی رائے سے الگ تھلگ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ یہ تو سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اگر حقیقت میں مشورہ کسی کو مِلنا چاہیے تو وہ خود عمران خان صاحب کو مِلنا چاہیے۔ کیونکہ عمران خان کی کرکٹ کے دِنوں سے ایک عادت بنی ہوئی ہے۔

سپورٹس مین بھی تو تماشائیوں کو محظوظ کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی سپورٹس مین ہو، وہ میڈیا کے حوالے سے بڑا جارحانہ ہوتا ہے۔ سو عمران خان بھی میڈیا کے حوالے سے بہت جارحانہ مزاج رکھتے ہیں۔ اور یہ بات میں نہیں کر رہا، اُن کے وزراء کر رہے ہیں۔ شیخ رشید یہ بات کہہ چکے ہیں۔ چودھری فواد یہ بات کہہ چکے ہیں کہ جی ہم تو وزیر اعظم صاحب کو کہتے ہیں کہ چھوڑیں آپ ان اخبار اور ٹویٹر کو اہمیت نہ دیا کریں۔

لیکن وہ ہر شام بیٹھ جاتے ہیں اور پھر اس کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ اس صحافی کو ذرا چُپ کراؤ۔ اس رویئے سے اُن کو نقصان ہو گا۔ اُن کی پارٹی کو نقصان ہو گا، حکومت کو نقصان ہو گا۔ عمران خان کے سب سے بڑے محسن وہ لوگ ہو سکتے ہیں، جو اُن پر تنقید کرتے ہیں۔ اُن کے سب سے بڑے دُشمن وہ ہیں جو اُن کی خوشامد کرتے ہیں۔اُن کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ اُن کو سُننا چاہیے۔ کیونکہ خوشامدی آپ کو بند کر دیتے ہیں، الگ تھلگ کر دیتے ہیں۔ تنقید کرنے والے ہی آپ کو راستہ دکھاتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :