افغان میں تباہ ہونے والے طیارے میں سی آئی اے اور امریکی فوج کے اعلی حکام سوار تھے

طیارے میں کل 83 افراد سوار تھے اور افغان طالبان کے زیر کنٹرول علاقے میں گر کر تباہ ہوا، طالبان نے طیارہ گرانے کی ذمے داری قبول کر لی: روسی خبر رساں ادارے کا دعویٰ

muhammad ali محمد علی پیر 27 جنوری 2020 19:53

افغان میں تباہ ہونے والے طیارے میں سی آئی اے اور امریکی فوج کے اعلی ..
کابل (اردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین 27 جنوری 2020 ء ) افغان میں تباہ ہونے والے طیارے میں سی آئی اے اور امریکی فوج کے اعلی حکام سوار تھے، روسی خبر رساں ادارے کا دعویٰ ہے کہ طیارے میں کل 83 افراد سوار تھے اور افغان طالبان کے زیر کنٹرول علاقے میں گر کر تباہ ہوا، طالبان نے طیارہ گرانے کی ذمے داری قبول کر لی۔ تفصیلات کے مطابق روسی خبر رساں ادارے کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں پیر کے روز گرنے والا مسافر طیارہ امریکا کا تھا جس میں اعلی عسکری حکام سوار تھے۔

دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ افغان طالبان کے ایک گروپ نے طیارے کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ طیارے میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور فوج کے اعلی حکام سوار تھے۔ مزید بتایا جا رہا ہے کہ آریانا ائیر لائن کا طیارہ پیر کے روز صوبہ غزنی میں گرا اور حادثے کے وقت طیارے میں 83 مسافرسوار تھے۔

(جاری ہے)

طیارے جس علاقے میں گر کر تباہ ہوا وہ افغان طالبان کا زیر کنٹرول علاقہ ہے۔



افغان صوبائی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ صوبہ غزنی کے ضلع ڈیہ یاک میں دوپہر ایک بج کر 10منٹ پر طیارہ گر کر تباہ ہوا۔ طیارے میں آگ لگی ہوئی تھی جسے گاؤں کے لوگوں نے بجھانے کی کوشش بھی کی۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ یہ طیارہ امریکا فوج کا طیارہ تھا جس میں سوار تمام اعلی عسکری حکام ہلاک ہو چکے ہیں۔ افغان طالبان نے بھی تصدیق کی ہے کہ طیارہ ان کے زیر کنٹرول علاقے میں گر کر تباہ ہوا ہے۔

طیارے میں امریکی فوج اور سی آئی اے کے جو حکام سوار تھے وہ تمام کے تمام اعلی عہدوں پر فائز تھے۔ تاہم اس حوالے سے تاحال امریکی محکمہ دفاع کا حکومت نے کوئی ردعمل یا بیان جاری نہیں کیا۔ امریکی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ امریکی دفاعی حکام اس تمام معاملے کی ابتدائی تحقیقاتی مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جلد ہی طیارہ حادثے کے حوالے سے تمام تر تفصیلات جاری کر دی جائیں گی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستان کی کوششوں سے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں جلد بڑی پیش رفت ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔