کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی کے پانچ اگست کے اقدام کے بعد دنیا میں بھارت کے حوالے سے نکتہ نظر میں بنیادی تبدیلی آئی ہے،

بھارت میں انتخابات قریب آنے پر مودی کی جانب سے پلوامہ واقعہ کی طرح کی حماقت کا خطرہ موجود ہے ، پاکستان کسی بھی قسم کی جارحیت سے نمٹنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے‘ اندرونی سیاسی اختلافات کے باوجود کشمیر کے تنازعہ پر پوری قوم متحد ہے‘ سیکولر اور جمہوری بھارت آج دنیا میں نفرت کی علامت بن چکا ہے چیئرمین قومی کشمیر کمیٹی سید فخر امام ’’ پاکستان اور مسئلہ کشمیر ‘‘کے موضوع پر سیمینار سے خطاب

جمعرات 30 جنوری 2020 17:55

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جنوری2020ء) قومی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی کے پانچ اگست کے اقدام کے بعد دنیا میں بھارت کے حوالے سے نکتہ نظر میں بنیادی تبدیلی آئی ہے۔ بھارت میں انتخابات قریب آنے پر مودی کی جانب سے پلوامہ واقعہ کے بعد کی طرح کی حماقت کا خطرہ موجود ہے تاہم وہ یاد رکھے کہ پاکستان کسی بھی قسم کی جارحیت سے نمٹنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے‘ اندرونی سیاسی اختلافات کے باوجود کشمیر کے تنازعہ پر پوری قوم متحد ہے‘ سیکولر اور جمہوری بھارت آج دنیا میں نفرت کی علامت بن چکا ہے۔

وہ جمعرات کو یہاں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں پاکستان اور مسئلہ کشمیر کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

سیمینار سے وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور ‘ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جلیلانی‘ ڈی جی آئی ایس ایس اعزاز چوہدری‘ ڈاکٹر ماریہ سلطان نے بھی خطاب کیا۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری اس وقت دنیا کے محروم ترین انسانوں میں شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کی واضح قراردادیں ہونے کے باوجود انہیں بنیادی حق خودارادیت سے محروم رکھا جارہا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں نے اس جدوجہد میں اپنی جانوں کی قربانی دی ہے۔ پلوامہ واقعہ کو بنیاد بنا کر 1971ء کے بعد پہلی بار بھارت نے پاکستان کی سرحد کو عبور کیا جس کا انجام اس نے دیکھ لیا۔ یہ ان کے لئے واضح پیغام تھا کہ وہ کسی جارحیت کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

آزاد کشمیر کے عوام نے بھارتی افواج سے لڑ کر یہ خطہ آزاد کرایا۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متاثر کن تقریر میں دنیا کے لئے جن چار بڑے خطرات کی نشاندہی کی ان میں ایک تنازعہ کشمیر بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ وہ تیسرے درجے کے شہری کے طور پر بھارت کے ساتھ نہیں رہیں گے۔ بھارت میں شہریت کے قانون میں متنازعہ تبدیلی کے بعد کئی ریاستوں کے وزراء اعلیٰ نے اس پر عملدرآمد سے انکار کردیا ہے۔

اب دنیا اس حوالے سے بات کر رہی ہے ‘ کشمیر کے تنازعہ کو تسلیم کر رہی ہے۔ فخر امام نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کی برآمدات اس خطے میں بنگلہ دیش اور ویتنام سے بھی کم ہیں جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی برآمدات 300 ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہیں۔ ہماری حکومت اس سلسلے میں اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے تیار کرنا ہوگا۔

جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پلوامہ واقعہ کے بعد پاکستان پر جارحیت کا منہ توڑ جواب پیغام تھا کہ کسی بھی جارحیت کا پاکستان بھرپور جواب دے گا۔ کشمیریوں کے لئے ہمارا یہ پیغام ہے کہ پاکستان ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ بھارت کی جانب سے پانچ اگست کا اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ میری یہ رائے ہے کہ بھارت کشمیریوں کے جذبے کو غلط طور پر پرکھ رہا ہے۔

کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں آٹھ لاکھ پچاس ہزار قابض افواج موجود ہیں تاہم کشمیریوں کی جدوجہد جاری ہے۔ تمام تر ظلم و تشدد کے باوجود کشمیریوں کی آزادی کا جذبہ ماند نہیں پڑا۔ کشمیر بھارت کا قبرستان ثابت ہوگا۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بنیادی حق خودارادیت کے لئے جدوجہد کرنے پر کشمیریوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے بھارتی جارحیت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں ایسی قربانیوں کی مثال نہیں ملتی۔ بھارت کو ہم یہ پیغام دیتے ہیں کہ جذبے اور ہتھیار کی جنگ میں جیت ہمیشہ جذبے کی ہوئی ہے۔ پاکستان کا یہ مطالبہ ہے کہ تنازعہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیا جائے۔ یہ ایک تسلیم شدہ تنازعہ ہے۔ اس پر دنیا کی خاموشی حیران کن ہے۔ ہمیں مذمت سے آگے بڑھ کر ہندو توا اور نازی سوچ کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان نے دنیا کے سامنے مودی کو ہٹلر کے طور پر بے نقاب کیا اور آج دنیا اس کو تسلیم کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کشمیر میں رائے شماری کرائے اور کشمیریوں کو بنیادی حقوق دے ۔ پاکستان کے عوام ‘ افواج اور حکومت کشمیریوں کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ اعزاز چوہدری نے کہا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے پانچ اگست کے فیصلے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دو بار یہ معاملہ زیر بحث آیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی جانب سے بیانات آئے ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ میں یہ معاملہ زیر بحث ہے۔ عالمی میڈیا اب اس پر آواز اٹھا رہا ہے۔ امریکی کانگریس میں اس پر بات ہو رہی ہے جبکہ اس مسئلے پر بھارت کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ وزیراعظم کے احکامات کی روشنی میں یوم یکجہتی کشمیر بھرپور انداز میں منایا جائے گا اور اس روز مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک ڈوزیئر بھی تیار کریں گے۔