ریکوڈک کیس: عالمی ثالثی عدالت حکومت پاکستان کی نظرثانی کی درخواست منظور کرلی

حکومت نے6ارب ڈالر جرمانے کے خلاف ثالثی عدالت میں اپیل دائر کررکھی ہے

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 30 جنوری 2020 20:54

ریکوڈک کیس: عالمی ثالثی عدالت حکومت پاکستان کی نظرثانی کی درخواست منظور ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 جنوری۔2020ء) ریکوڈک کے بارے میں عالمی ثالثی عدالت کی جانب سے کیے گئے چھ ارب ڈالر کے جرمانے کے خلاف حکومت پاکستان کی نظرثانی کی درخواست منظور کرلی گئی، بلوچستان کابینہ نے کیس میں حصہ لینے والے وکلا کی ٹیم کی توثیق کردی ہے. بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں سونے اور چاندی کی تلاش کے لیے بلوچستان حکومت کے ادارے بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کینیڈا کی کمپنی بی اپچ پی کے درمیان 29 جولائی 1993 کو ایک معاہدہ ہوا جسے چاغی ہیلز ایکسپوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ کا نام دیا گیا.

(جاری ہے)

اس معاہدے کے بعد یہاں سونے اور چاندی کی تلاش کاکام شروع ہوا، جو مختلف مراحل طے کرنے کے بعد تنازعات کا شکار ہوکر عالمی ثالثی عدالت کے ایک شعبے انٹر نیشنل سنٹر فور سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹ پہنچ گیا‘اس فورم نے حکومت پاکستان پر تقریباً چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کردیا، تاہم ملک کے ماہرین قانون اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں.

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ایک بینچ نے قواعد کی خلاف ورزی پر ٹی سی سی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو کالعدم قرار دیا تھا‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹی سی سی نے مائننگ کی لائسنس کے حصول کے لیے دوبارہ حکومت بلوچستان سے رجوع کیا تھا.اس وقت کی بلوچستان حکومت نے لائسنس کی فراہمی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ کمپنی یہاں سے حاصل ہونے والی معدنیات کو ریفائن کرنے کے لیے بیرون ملک نہیں لے جائے گی حکومت کی جانب سے چاغی میں ریفائنری کی شرط رکھنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حصے کو بھی بڑھانے کی شرط بھی رکھی گئی.

ریکوڈک کیس کا فیصلہ سنانے والا بینچ تین ججوں پر مشتمل تھا جس میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اب ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید اس وقت حاضر سروس ججز ہیں .ریکوڈک ایران اور افغانستان سے طویل سرحد رکھنے والے بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے ریکوڈک کا شمار پاکستان میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے جبکہ دنیا کے چند بڑے ذخائر میں ہوتا ہے.

ریکوڈک کے قریب ہی سیندک واقع ہے جہاں ایک چینی کمپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تانبے اور سونے کے ذخائر پر کام کر رہی ہے تانبے اور سونے کے دیگر ذخائر کے ساتھ ساتھ چاغی میں بڑی تعداد میں دیگر معدنیات کی دریافت کے باعث ماہرین ارضیات چاغی کو معدنیات کا ”شو کیس“ کہتے ہیں.حکومت بلوچستان نے یہاں کے معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کے لیے ریکوڈک کے حوالے سے 1993 میں ایک امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز کے ساتھ معاہدہ کیا تھا یہ معاہدہ بلوچستان ڈیویلپمنٹ کے ذریعے امریکی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر کیا گیا تھا.چاغی ہلز ایکسپلوریشن کے نام سے اس معاہدے کے تحت 25 فیصد منافع حکومت بلوچستان کو ملنا تھا اس معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی نے منکور کے نام سے اپنی ایک سسٹر کمپنی قائم کرکے اپنے شیئرز اس کے نام منتقل کیے تھے منکور نے بعد میں اپنے شیئرز ایک آسٹریلوی کمپنی ٹھیتیان کوپر کمپنی (ٹی سی سی)کو فروخت کیے.نئی کمپنی نے علاقے میں ایکسپلوریشن کا کام جاری رکھا جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ریکوڈک کے ذخائر معاشی حوالے سے سود مند ہیں بعد میں کینیڈا اورچِلی کی دو کمپنیوں کے کنسورشیم نے ٹی سی سی کے تمام شیئرز کو خرید لیاتھا.ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان کے بعض سیاسی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے تھے ان حلقوں کی جانب سے اس رائے کا اظہار کیا جاتا رہا کہ ریکوڈک کے معاہدے میں بلوچستان کے لوگوں کے مفاد کا خیال نہیں رکھا گیا اس معاہدے کو پہلے بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا مگر ہائی کورٹ نے اس حوالے سے مقدمے کو مسترد کر دیا تھا بعد میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا.