ہم ایجوکیشن سٹی میں دوسو ایکڑ ذمین پر ایک اقامتی جامعہ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، چانسلر جاوید انوار

سرسید یونیورسٹی کے 23ویں کانوکیشن کے موقع پر1200سے زائدطلباء و طالبات کو ڈگریاں تفویض کی گئیں،سابق گورنر سندھ لیفٹینٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کو سرسید یونیورسٹی کی اعزازی ڈگری دی گئی

اتوار 9 فروری 2020 17:40

راچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 فروری2020ء) سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا تیئسواںکانوکیشن روایتی جوش و جذبے سے منایا گیا جس میں سردار یاسین ملک کے علاوہ مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ علمی شخصیات کے علاوہ معززین، فیکلٹی و طلباء کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔تقریب کے مہمانِ خصوصی جسٹس (ر) حازق الخیری تھے۔

اس موقع پر تقریباًًبارہ سو سے زائدطلباء و طالبات کو ڈگریاں تفویض کی گئیں اور امتیازی نمبروں سے اول، دوئم اور سوئم پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء و طالبات میں بالترتیب طلائی، چاندی اور کانسی کے تمغے تقسیم کئے گئے۔لیفٹینٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کو شعبہ تعلیم اور سماجی فلاح و بہبود میں نمایاں خدمات پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔

(جاری ہے)

سرسید یونیورسٹی کے تیئسویں کانوکیشن سے خطاب کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی جسٹس (ر) حازق الخیری نے کہا کہ کانوکیشن آپ کی انٹھک محنت کا ایک خوشگوار انجام ہے۔زندگی میںکچھ پانے کی خوشی کا نام کانوکیشن ہے۔یہ لمحہ آپ کی زندگی کا یادگار لمحہ ہے۔ آپ ایک نئے سفر کا آغاز کر رہے ہیں اورعملی زندگی میں داخل ہورہے ہیں جہاں قدم قدم پر آپ کو چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔

آپ کی اس کامیابی میں آپ کے والدین کا بہت بڑا دخل ہے۔ان کی قربانیوں اور مدد کو درگزر نہیں کیا جاسکتا جو آپ کی کامیابی کا ذریعہ بنی۔ ہم ایک پیچیدہ سچویشن میں گھرے ہوئے ہیں جہاں سے نکلنے میں آپ کی مہارت اور قابلیت ہی کام آئے گی۔پروفیشنل کی طلب اور رسد غیر متوقع اور انتہائی مسابقتی ہے۔آپ کو مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا ہوگا اور اپنے آپ کو اًپ ڈیٹ کرتے رہنا ہوگا۔

نئی ٹیکنالوجی میں مہارت کے علاوہ آپ کو مختلف شعبوں میں پیش رفت کے ساتھ معلومات میں مسلسل اضافہ کرتے رہنا ہوگا۔چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ اپنی محنت سے ایک پًل کی خوشی کو دائمی خوشی میں بدلا جا سکتا ہے۔طلباء کی قابلیت اور مہارت ترقی اور کامیابی نہ صرف انکی ترقی کا باعث بنتی ہے بلکہ ملک اور قوم کی بہتری اور خوشحالی کا سبب بھی بنتی ہے۔

ہم بحثیت قوم، جمود کا شکار ہیں۔ہمیں اس جمود سے نکلنے اورشاندارمستقبل پانے کے لیے مسلم سائنسدانوں کے کارناموں سے ترغیب حاصل کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔یہ دور انڈسٹرئیل ریولیوشن فورتھ جنریشن کا ہے۔ طلباء کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔اس یادگار موقع پر خطاب کرتے ہوئے چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ طلباء کوentrepreneurship اور ایسی ٹیکنالوجی سے جُڑنا ہوگا جو مختلف مصنوعات کے پرزہ جات بنانے میں معاونت کرے۔

آپ کے تیار کردہ پروڈکٹس کی مارکیٹنگ اور انھیں Patent کرنے کے مرحلے سے گزارنے کے لیے اداروں کی سپورٹ اور مالی تعاون ضروری ہے جس کے بغیر self-entrepreneurship تک نہیں پہنچا جا سکتا۔سرسید یونیورسٹی کوشش ہے کہ طلباء کو ایسے اداروں سے جوڑیں جو طلباء کی پروڈکٹس کو مقامی اور عالمی منڈیوں تک پہنچانے میں معاون ہوں۔چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ فکرِ سیدی کو اپناتے ہوئے ہم ایجوکیشن سٹی میں دوسو ایکڑ ذمین پر ایک اقامتی جامعہ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جو سرسید احمد خان کے تعلیم و تربیت کے مشن کو آگے بڑھائے گا۔

سرسید یونیورسٹی میں بشیر جان محمد کے نام سے سینٹر آف ایکسیلنس فار سائبر سیکوریٹی قائم کیا گیا ہے جوایک تربیتی مرکز ہے۔یہ اپنی نوعیت کا پہلا سینٹر ہے جو نئی ٹیکنالوجی سے طلباء کو جوڑے گا۔سینٹر آف ایکسیلنس فار سائبر سیکوریٹی اور بین الاقوامی EC-Council کے مابین ایک MoU سائن ہوچکا ہے جس کے تحت EC-Council کی سرٹیفیکیشن باڈی کی جانب سے سائبر سیکورٹی کی تربیت حاصل کرنے والے طلباء کو سرٹیفیکیٹس (certificates) دیے جائیں گے ۔

۔۔ یعنی آپ پاکستان میںبین الاقوامی سرٹیفیکیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔اس موقع پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرولی الدین نے کہا کہ گریجویشن آخری منزل نہیں ہے بلکہ یہ تو شروعات ہیں۔گریجویشن زندگی کا حتمی مقصد نہیں ہے بلکہ معاشرے اور انسانوں کی بہتری کے لیے اپنی خواہشات کی قربانی، تجربات اور اضافی قابلیت درکار ہوتی ہے۔وقت کے ساتھ یونیورسٹی نے بھی مختلف سمتوں میں بہت ترقی کرلی ہے۔

دو شعبوں سے آغاز کرنے والی جامعہ سرسیدمیں اب بارہ شعبوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ہر سال طلباء کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔اس وقت تقریباًً چھ ہزار طلباء یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں۔اسی طرح اساتذہ کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔سرسید یونیورسٹی آپ کو اتنی مہارت، صلاحیت اور قابلیت سے لیس کر دیتی ہے کہ آپ درپیش چیلنجز کا سامنا کر سکتے ہیں اور ملک کو ترقی کی ایک ایسی سطح پر پہنچا سکتے ہیں کہ جہاں ایک عام آدمی خوشگوار اور پرسکون زندگی بسر کر سکے۔

سرسید یونیورسٹی میں جدید طرز تدریس رائج ہے۔حال ہی میں مختلف شعبوں میں ورسٹائل تعلیم کو فروغ دینے کے لیے واشنگھٹن accord اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کی گائیڈلائن کے مطابق سرسید یونیورسٹی میں Outcome Baed Education (OBE) کو متعارف کرایا گیا ہے۔قبل ازیں رجسٹرار سید سرفراز علی نے خیرمقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ تعلیم معاشی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔

اول پوزیشن حاصل کرنے پر طلائی تمغہ حاصل کرنے والوں میںنورالمومنین (شعبہ کمپیوٹر انجینئرنگ)، فیضان احمد شیخ (شعبہ الیکٹرانک انجینئرنگ)، مومل ندیم (شعبہ بائیو میڈیکل انجینئرنگ)،عبدالرافع (سول انجینئرنگ)، سید روائم ظفر (شعبہ ٹیلی کمیونیکیشن انجینئرنگ)، اسامہ احمد (شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ)، محمد سجیل (شعبہ کمپیوٹر سائنس)، فرقان علی خان (شعبہ سافٹ ویئر انجینئرنگ)،سلوسٹر (شعبہ بائیوانفارمیٹکس) اور کشمالہ یامین (شعبہ آرکیٹیکچر) شامل ہیں۔

جب کہ دوئم پوزیشن پر چاندی کا تمغہ حاصل کرنے والوں میں عمار احمد (شعبہ کمپیوٹر انجینئرنگ)، سیدہ شہر بانو (شعبہ الیکٹرانک انجینئرنگ)، حفصہ ندیم (شعبہ بائیو میڈیکل انجینئرنگ)، عبدالواجد (شعبہ سول انجینئرنگ)، شاہ زیل خان (شعبہ ٹیلی کام انجینئرنگ)، خرم حسین (شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ)، عبدالمعیززاحد (شعبہ کمپیوٹر سائنس)، ایشا حسن (شعبہ سافٹ ویئر انجینئرنگ)، طلحہ رحمان (شعبہ بائیو انفارمیٹکس) اور شجیعہ ندیم (شعبہ آرکیٹیکچر) شامل ہیں۔

سوئم پوزیشن پر کانسی کا تمغہ حاصل کرنے والوں میں مومن نقوی (شعبہ کمپیوٹر انجینئرنگ)، محمد عمر فاروق (شعبہ الیکٹرانک انجینئرنگ)، رابعہ افضال (شعبہ بائیو میڈیکل انجینئرنگ)، حاتم اختر حسین (شعبہ سول انجینئرنگ)، ماہا رحمن (شعبہ ٹیلی کام انجینئرنگ)، اسد علی (شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ)، فہد علی (شعبہ کمپیوٹر سائنس)، علی حیدر ملک (شعبہ سافٹ ویئر انجینئرنگشعبہ آرکیٹیکچر) شامل ہیں۔