جسٹس رانا بھگوان داس کی یاد میں تقریب، ماہرینِ قانون کا خراجِ تحسین

بدھ 12 فروری 2020 17:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 فروری2020ء) پاکستان کی تعمیر و ترقی اور اس کے قومی اداروں کو استحکام دینے اور مضبوط بنانے میں جسٹس رانا بھگوان داس جیسے ملک کے کء غیر مسلم فرزندوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف ان غیر مسلم ماہرین کی خدمات کو سراہا جائے بلکہ ملک کے نوجوانوں کی نظریاتی سوچ کی تعمیر کے لیے ان میں یہ آگہی بھی پیدا کی جائے کہ کس طرح ان ماہرین نے اقلیت میں سے ہونے کے باوجود ملک کی قانونی، عدالتی، آئینی اور سماجی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

یہ اسلام آباد میں جسٹس رانا بھگوان داس کے یاد میں ہونے والی ایک تقریب کا خلاصہ تھا جس کا اہتمام اسلامی نظریاتی کونسل اور انسٹیٹوٹ آف پالیس اسٹڈیز کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

اس تقریب سے خظاب کرنے والوں میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، ایڈووکیٹ اکرم شیخ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایگزیگٹیو پریزیڈنٹ خالد رحمٰن، قومی اسمبلی کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی، مولانا ابو عمار زاہدالراشدی، اسلام آباد ہندو پنچائیت کے صدر مہیش کمار، اور جسٹس رانا بھگوان داس کے برادرِ نسبتی سبھاش چندرشامل تھے ، جبکہ سینیٹر راجہ ظفر الحق کا خصوصی پیغام بھی انسٹیٹیوٹ کے سینئیر تحقیق کار سید ندیم فرحت نے اس موقع پر پڑھ کر سنایا۔

مقررین کا کہنا تھا کہ جسٹس بھگوان داس ایک محبِ وطن شہری تھے جو قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے اور اپنے تمام فیصلے بھی قوانین کی روشنی میں ہی کرتے تھے۔ انہوں نے اسللامیات میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی تھی اور اسی بنا پر انہیں اسلامی فکر اور قانون پر عبور حاصل تھا۔ وہ ایک انتہائی صول پسند انسان تھے اور انہوں نے اپنے کردار، رویئے، غیر جانبداری، متوازن سوچ کی بنا پر اتنی عزّت اور اعلیٰ مقام حاصل کیا۔

ہمیں چاہیے کہ ہم جسٹس بھگوان داس اور ان کی طرح اقلیت سے تعلق رکھنے والے ملک کے دیگر فرزندوں مثلا جسٹس اے آر کانیلیس اور جسٹس دراب پٹیل وغیرہ کی خدمات کو یاد رکھیں اور ان سے رہنمائی حاصل کریں کہ کیسے انہوں نے اپنی محنت او مستقل مزاجی سے یہ مرتبہ حاصل کیا۔ مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں اقلیتوں کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ملکی سطح پر غیر امتیازی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔

اگرچہ کسی بھی ملک کی طرح یہاں بھی کچھ انتہا پسند طبقات موجود ہیں، لیکن حال میں ہی ہونے والے مختلف واقعات اور قانونی فیصلوں کی روشنی میں عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کے نظام اور معاشرے میں بھی اقلیتوں کو ان کا حق دینے کی گنجائش نظر آتی ہے۔ مقررین نے اس موقع پر انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور اسلامی نظریاتی کونسل کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قومی ہیرو ز اور انکی خدمات کو یاد کرنے والی ایسی کوششوں کو جاری رہنا چاہیے۔