مودی حکومت نازی فلسفے کو پروان چڑھا رہی ہے، نوٹس نہ لیا گیا تو عالمی امن کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، افغانستان میں پائیدار امن کے خواہاں ہیں

وزیر اعظم عمران خان کا پاکستان میں افغان مہاجرین کے قیام کے 40 سال کے موضوع پر عالمی کانفرنس سے خطاب

پیر 17 فروری 2020 15:35

مودی حکومت نازی فلسفے کو پروان چڑھا رہی ہے، نوٹس نہ لیا گیا تو عالمی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 فروری2020ء) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ گزشتہ 20 سال سے انتہائی مشکل معاشی حالات کے باوجود پاکستان نے افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے اور ہم نے اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود افغانستان مہاجرین کی میزبانی جاری رکھی، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے ذریعے ہمیں انسانیت پر رحم کا درس دیا ہے، اسلام صرف مسلمانوں کے حقوق کا احترام ہی نہیں سکھاتا بلکہ انسانیت کی تعظیم کا بھی درس دیتا ہے، مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا نے مسلمان مہاجرین کے مسائل میں بہت اضافہ کیا، مودی حکومت نازی فلسفے کو پروان چڑھا رہی ہے، موجودہ بھارت گاندھی اور نہرو کا بھارت نہیں رہا، اقوام متحدہ نے بھارت کے حالات کا نوٹس نہ لیا تو عالمی امن کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہیجبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ انتہائی کم عالمی معاونت کے باوجود پاکستان کی طرف سے افغان مہاجرین کی میزبانی میں فرق نہیں آیا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو پاکستان میں افغان مہاجرین کے قیام کے 40 سال کے کے موضوع پر عالمی کانفرنس سے خطاب میںکیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ گزشتہ 20 سال کے دوران پاکستان کے معاشی حالات بہتر نہ ہونے کے باعث عوام کے لئے بہت مشکل حالات رہے ہیں اور پاکستان نے اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود افغانستان مہاجرین کی میزبانی جاری رکھی۔

انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کے بچوں نے پاکستان میں قیام کے دوران کرکٹ سیکھی اور آج افغانستان کی کرکٹ ٹیم عالمی درجہ بندی میں شامل ہو چکی ہے جس نے گزشتہ دنوں پاکستان کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم کو شکست بھی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب رسول پاک ؐ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو انصار کا جذبہ مثالی تھا، انہوں نے مہاجرین کی ہر طرح کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون کیا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اللہ پاک قرآن مجید کے ذریعے ہمیں انسانیت پر رحم کا درس دیتا ہے اور اسلام میں صرف مسلمانوں کے حقوق کے احترام کا درس ہی نہیں دیا جاتا بلکہ انسانیت کی بھی عزت و احترام کو انتہائی مقدم کہا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا سے مسلمان مہاجرین کے مسائل میں بہت اضافہ ہوا اور مغرب میں رنگ کی بنیاد پرلوگوں کو مارا پیٹا جاتا رہا۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ایک ارب سے زائد آبادی والے بھارت میں بھی انتہا پسند سوچ غالب آچکی ہے، مودی حکومت نے 2 نئے قانون متعارف کرائے ہیں جس سے 20 کروڑ بھارتی مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے بنیادی حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مودی کی انتہا پسند سوچ نے 80 لاکھ کمشیریوں کو کئی ماہ سے محاصرے میں لے رکھا ہے جس پر اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ حق خود ارادیت کی پر امن جدوجہد کرنے والے معصوم اور نہتے کشمیریوں پر جاری بھارتی مظالم کو ختم کرانے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق ارادیت فراہم کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پرامن حل کے لئے پاکستان میں حکومت اور تمام ادارے ایک صفحہ پر ہیں اور پوری پاکستانی قوم اور تمام ادارے افغانستان میں پائیدار امن کے خواہاں ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ افغان عوام برسوں کی خانہ جنگی کے بعد اب امن و خوشحالی کے مستحق ہیں۔ افغانستان میں خانہ جنگی کا خاتمہ نہ صرف پاکستان کے مفاد میں ہے بلکہ اس سے خطے میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امن و سلامتی کے فروغ میں بھی مدد ملے گی ۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب افغانستان میں امن ہو گا تو علاقائی تجارت کو فروغ ملے گا جس سے خطے کے تمام ممالک مستفید ہوں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے موجودہ حالت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ بھارت گاندھی اور نہرو کا بھارت نہیں رہا بلکہ وہاںپر مودی کی حکومت نازی فلسفہ کو پروان چڑھا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے بھارت کے حالات اور اقدامات کا نوٹس نہ لیا تو اس سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ تنازعات کے پر امن حل کی ضرورت پر زور دیا ہے اور باہمی مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہش مند رہا ہے لیکن بھارتی وزیر اعظم اور آرمی چیف کی جانب سے انتہاء پسندانہ خیالات کا اظہار کسی صورت میں بھی ذمہ دارانہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کے حالات انتہائی سنگین ہو جائیں عالمی برادری بھارتی پالیسیوں کا نوٹس لیتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے تاکہ انتہا پسندی کو ختم کیا جا سکے جو امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں قیام امن کے لئے ہر ممکن سہولتیں فراہم کررہے ہیں، جب لاکھوں مہاجرین اپنے وطن واپس چلے جائیں گے تو افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحد پر دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنے میں مدد ملے گی۔ پاکستان اس مقصد کے لئے پاک افغان سرحد پر باڑ بھی لگا رہا ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس نے کہا کہ40 سال سے افغان عوام مسائل کا شکار ہیں، 40 سال سے پاکستان نے افغان مہاجرین کے لئے اپنے دروزے کھلے رکھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنے اندرونی مسائل کے باوجود افغان مہاجرین کے لئے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا، افغان مسئلہ کا تمام تر حل افغان قیادت کی مشاورت میں ہی پنہاں ہیں، افغانستاں میں امن کے ذریعے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں تبدیل کی جاسکتی ہیں جس سے خطے کی ترقی اور خوشحالی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کی جانب سے افغان مہاجرین کی میزبانی مفاہمت کی بہترین مثال ہے اور دونوں میزبان ممالک نے اپنے افغان مہاجرین کی جس طرح میزبانی کی ہے ایسے بھائی چارے کی مثال نہیں ملتی، افغان عوام40 سال سے مسائل میں ہیں اور پاکستانی عوام ان کے ساتھ مسلسل یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے کہاکہ اسلام بھی پناہ تلاش کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کا درس دیتا ہے۔ سیکرٹری جنرل نے کہا ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ مہاجرین کی میزبانی کے حوالے سے پاکستان کی عالمی سطح پر معاونت انتہائی کم رہی لیکن اس کے باوجود میزبانی میں فرق نہ آیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تضادات کے خاتمہ اور غربت میں کمی کے لئے مل کر کام کرنا چاہیے اور عالمی برادری افغان عوام کے بہتر مستقبل کے لئے اپنا کردار اد اکرے، ہمیں افغان امن عمل کی معاونت کرنی چاہیے تاکہ پناہ گزینوں کی باعزت وطن واپسی ممکن ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کی واپسی اور بحالی کے لئے یو این ایچ سی آر کام کررہا ہے جس کے لئے زیادہ وسائل کی ضرورت ہے تاکہ مہاجرین کو واپسی پر بحالی کے لئے مدد دی جا سکے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امن و امان میں بہتری سے تعمیر نو اور بحالی کے کام میں مدد ملے گی اور پناہ گزینوں کی آبادکاری بھی بہتر ہوگی جو پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت ہے بین الاقوامی برادری اس حوالے سے عمل کرے اور انتظامات میں شراکت داری کرے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن وامان کا عمل تمام شراکت داروں کی مشاورت سے ہوناچاہیے جو دنیا بھر میں امن کے لئے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کی کانفرنس کے انعقاد اور اس میں شریک تمام وفود کی شرکت اس بات کی عکاس ہے کہ ہمیں عالمی سطح پر مربوط شراکت داری کرنی ہوگی۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستا ن 40 سال سے 30 لاکھ رجسٹرد اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے، افغان مہاجرین کو عالمی کانفرنس سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں، افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور افغان معاشرے میں عالمی تعاون کی اشد ضرورت ہے، پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کو صحت تعلیم اور فنی تربیت کی سہولتیںفراہم مہیا کرتا آرہا ہے،10 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے افغانستان میں پائیدار امن بنیادی شرط ہے اور افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کیلئے تمام شرکتداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سیفران کے وزیر صاحبزادہ محبوب سلطان نے کہا کہ پاکستان 40 سال سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ان مہاجرین کی وطن واپسی کی مؤثر حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔

پاکستان افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لئے اپنا کردار اد اکرتا رہے گا۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے نائب صدر دوئم سرور دانش کہا کہ گزشتہ تین سال کے دوران لاکھوں افغان مہاجرین افغانستان واپس آئے ہیں ۔ ہم نے ان مہاجرین کا واپسی پر بھروپر خیرمقدم کیا ہے اور مستقبل میں بھی ان کی واپسی پر ہر سہولت فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر کے برادرانہ بھائی چارے اور دوستی کا حق ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو مہاجرین کی واپسی کے لئے مزید مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے اور اس حوالے سے مالی اور دیگر معاونت فراہم کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے لئے تعاون فراہم کررہا ہے ۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں امن کا حصول ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں افغان امن عمل افغانوں کی قیادت میں ہونا چاہیے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلپو گرانڈی نے کہا کہ 40 سال سے پاکستان اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ استقامت کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ پاکستان اور ایران نے انتہائی مشکل حالات میں لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی اور عالمی سطح پر رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کے 90 فیصد کے مساوی ان ممالک میں مقیم ہیں۔ پاکستان اور ایران پناہ گزینوں کی تعلیم، صحت اور مالیات کے شعبہ تک رسائی کے علاوہ دیگر سہولیات کو بھی یقینی بنا رہے ہیں تاکہ وہ ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ میزبان ملکوں کی حکومتوں اور عوام کی قربانیوں کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ابھی بھی خانہ جنگی مکمل ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مہاجرین کی وطن واپسی کا پائیدار حل تلا ش کرنا ہے اور اس حوالہ سے تمام شراکتداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ پناہ گزینوں کی با عزت واپسی کو یقینی بنایا جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا افغان مہاجرین کیلئے بینک اکائونٹ کھلوانے کی اجازت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس موقع پر وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، معاونین خصوصی، ارکان پارلیمنٹ اور مختلف ممالک کے سفراء بھی موجود تھے۔