افغان پناہ گزینوں کے ہوتے ہوئے پاکستان انتہاپسندی روکنے کی ضمانت نہیں دے سکتا. عمران خان

پاکستان میں امن چاہتے ہیں‘مودی کے پاکستان کو تباہ کرنے والے بیان پر عالمی برادری نے کیا نوٹس لیا ہے.وزیراعظم

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 17 فروری 2020 16:20

افغان پناہ گزینوں کے ہوتے ہوئے پاکستان انتہاپسندی روکنے کی ضمانت نہیں ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 فروری۔2020ء) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں افغان پناہ گزینوں کے موجود ہوتے ہوئے پاکستان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ یہاں سے ہونے والی انتہاپسندی روکنے کی ضمانت دے سکے پیر کو اسلام آباد میں افغان پناہ گزینوں سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگا رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی جب تک پناہ گزین واپس نہیں چلے جاتے انتہاپسندی کے مکمل خاتمے کی ضمانت دینا ممکن نہیں.

(جاری ہے)

اس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد بھی موجود تھے‘عمران خان نے کہا کہ27 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں کہ ہم یہاں سے ہونے والی انتہاپسندی کو روک سکیں لیکن ہم باڑ لگا رہے ہیں جو تقریباً مکمل ہو چکی ہے اس کے باوجود بھی ان کی واپسی تک ضمانت دینا ممکن نہیں.

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قابل ستائش تعلقات رہے ہیں جس میں پاکستان نے لاکھوں افغان پناہ گزین کو یہاں جگہ دی ہے، باوجود اس کے کہ پاکستان گذشتہ کئی دہائیوں سے معاشی بحران کا شکار رہا ہے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مختلف اداروں کے لیے دنیا بھر میں خیرات جمع کرنے کے دوران انھیں اس بات کا اندازہ ہوا تھا کہ فراخ دل ہونے کا تعلق بینک بیلنس سے نہیں ہوتامجھے اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے کس طرح افغان پناہ گزینوں کا خیال رکھا ہے انہوں نے کہا کہ1947 میں اپنے قیام کے وقت پاکستان بھی تارکین وطن کی آمد سے مشکلات سے دوچار تھا میری والدہ کا خاندان بھی بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا.

انہوں نے کہا کہ ایک اچھے لیڈر کی نشانی بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ تمام تر لوگوں کے بارے میں سوچتا ہے تاہم یہ افسوس ناک ہے کہ جب ہم امیر ممالک کی طرف دیکھتے ہیں تو حالات ایسے نہیں ہیں سیاسی راہنماﺅں نے تارکین وطن کا مسئلہ اٹھا کر انسانوں کو ایک دوسرے کے خلاف کیا ہے تاکہ ووٹ حاصل کر سکیں اور تارکین وطن سے نفرت کو فروغ دیا جائے انہوں نے کہا کہ کوئی ملک بھی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ اس کے ہاں شدت پسندی نہیں ممکن ہے پاکستان میں بھی شدت پسند رہے ہوں تاہم شدت پسندی میں سب بڑا ہاتھ مغربی دنیا کا ہے جس نے نائن الیون کے بعد اسلام کو شدت پسندی کا مذہب کہا جس سے اسلاموفوبیا بڑھا اورلوگ ان دونوں میں فرق نہ کر سکے.

انہوں نے کہا کہ دنیا میں پاکستان تارکین وطن کے معاملے میں دوسرا سب سے بڑا ملک ہے نائن الیون کے بعد ممکن ہے کہ کچھ شدت پسند جو افغانستان میں لڑ رہے تھے پاکستان آ کر رہے ہوں گے یہاں پانچ لاکھ لوگوں کے لیے پناہ گاہیں ہیں حکومت کیسے ان لاکھوں لوگوں میں کچھ ہزار شدت پسند کو پکڑ سکتی ہے جو ان کے بیچ رہ رہے ہوں. عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں امن کی بحالی اس لیے ضروری ہے تاکہ افغان پناہ گزین واپس جا سکیں اس کے بعد اگر کوئی شدت پسند یہاں سے کام کرتا ہے تو ہم اس کی ذمہ داری قبول کر سکیں گے.انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے فائدے میں نہیں کہ افغانستان میں حالات مزید خراب رہیں ہم وہاں انسانی بنیادوں پر امن چاہتے ہیں پاکستان کے قیام سے قبل بھی ہندوستان کے اس خطے کے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں.

واضح رہے کہ افغانستان کے نائب صدر سرور دانش نے کہا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کو افغان مخالف کارروائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے انہوں نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ کچھ افغان مخالف دھڑے پاکستان میں قائم ان پناہ گزین کیمپوں سے اپنے جنگجو بھرتی کرتے ہیں.وزیراعظم عمران خان نے بتایا شدت پسندی کے خلاف جنگ کے دوران دونوں طرف کے لوگ متاثر ہوئے ہیں وہاں شدید غربت ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن اور تجارتی سرگرمیوں کی بحالی سے ہم لوگوں کو روزگار دے سکتے ہیں.انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب (افغان) پناہ گزینوں نے اپنی زندگی عزت سے گزاری جبکہ پاکستان کے لوگوں نے معاشی مشکلات کے باوجود ان کی میزبانی کی انہوں نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کے بچوں نے یہاں کرکٹ دیکھنا اور کھیلنا شروع کی اور آج افغانستان کی اپنی قومی کرکٹ ٹیم ہے شرمناک بات یہ ہے کہ ان کی انڈر 19 ٹیم نے پاکستانی ٹیم کو ہرایا.عمران خان کی اس بات پر تالیوں کی گونج کے بعد انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا میں امید کرتا ہوں کہ ان کی قومی ٹیم ہماری ٹیم کو نہ ہرا سکے اس کے ساتھ انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ 11 دنوں میں پاکستان کو تباہ کر سکتے ہیں کیا ایک ارب سے زیادہ کی آبادی والے ملک کا سربراہ ایسے بیان دے سکتا ہے انہوں نے اقوام متحدہ کو متنبہ کیا کہ یہ تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے اور حالات مزید خراب ہو رہے ہیں.عمران خان سے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اپنے خطاب میں پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک نے اپنی مالی مشکلات کے باوجود افغان پناہ گزینوں کو جگہ دی جو ’دنیا کے لیے ایک مثال ہے ہم نے اس حوالے سے پاکستان کی مدد کی ہے تاکہ وہ صحت اور تعلیم میں اپنے مسائل کا خاتمہ کر سکے.

انتونیو گوتیرس نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے اپنے اقدامات کے مقابلے دنیا کی طرف سے پاکستان کی اتنی مدد نہیں کی گئی عالمی برادری کو چاہیے کہ مزید اقدامات کریں’ہم نفرت کے ان 40 برسوں پر افسوس ظاہر کرتے ہیں تمام مسائل کا حل افغانستان کے اندر ہی موجود ہے مجھے امید ہے کہ امن کا راستے سے یہاں کے لوگوں کا مستقبل بہتر ہو سکے گا.وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستانی قوم اور تمام ادارے افغانستان میں پائیدار امن کے خواہاں ہیں ملک میں 40 برس سے مقیم افغان مہاجرین کے حوالے سے اسلام آباد میں منعقدہ عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ 20 سال پاکستان کے عوام کے لیے بہت مشکل حالات رہے لیکن ہم نے تمام تر مشکلات کے باوجود لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی جاری رکھی.کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان، افغان مہاجرین کی میزبانی کے 40 سال مکمل ہونے کی خوشی منارہا ہے انہوں نے کہا کہ میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ دنیا میں اکثر ایسا نہیں ہوتا کہ مہاجرین ایسے اعزاز کے ساتھ رہے ہوں اور میزبانوں نے گزشتہ 20 برسوں میں معاشی چیلنجز کے باوجود افغان مہاجرین کے ساتھ بہتر طریقے سے اپنے تعلق کو برقرار رکھا ہو.وزیراعظم نے کہا کہ اس صورتحال کا ایک خوشگوار اثر یہ ہے کہ پاکستان میں کئی سالوں سے کرکٹ دیکھنے کے بعد اب افغانستان کی انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم بھی موجود ہے عمران خان نے کہا کہ سخاوت کا بینک بیلنس سے کوئی لینا دینا نہیں، اسلام ہمیں اخوت اور انسانوں کو متحد کرنے کا درس دیتا ہے.وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ میرا ماننا ہے کہ گزشتہ 40 سالوں میں افغانستان کے عوام دیگر کمیونیٹیز کے مقابلے میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور میں دل سے دعا کرتا ہوں کہ افغانستان میں امن مذاکرات کامیاب ہوجائیں انہوں نے کہا کہ ہم نے امن مذاکرات میں سہولت کی ہر ممکن کوشش کی ہے زلمے خلیل زاد جانتے ہیں کہ پورا ملک ایک پیج پر ہے ہماری سیکیورٹی فورسز ایک پیج پر ہیں اس وقت ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں.عمران خان نے کہا کہ یہ اس لیے نہیں ہے کہ پاکستان میں 14 لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین ہیں ہم مہاجرین کی تعداد کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں بلکہ اس لیے کے افغانستان کے عوام امن کے مستحق ہیںکانفرنس میں افغانستان کے دوسرے نائب صدر سرور دانش کی تقریر کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں ہیں.

انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا عام ہوگیا کیونکہ اسلام اور دہشت گردی کو ساتھ جوڑا گیا تھا جس سے دنیا بھر میں مسلمان مہاجرین کو مشکلات کا سامنا پڑا وزیراعظم نے کہا کہ ایسا ممکن ہے کہ نائن الیون کے بعد کچھ عسکریت پسند کو افغانستان میں لڑرہے تھے وہ یہاں آکر رہے ہوں، یہاں 5 لاکھ سے زائد لوگوں کے کیمپس موجود ہیں، ان لاکھوں افراد کے بیچ میں رہنے والے کچھ ہزار عسکریت پسندوں کو حکومت کیسے پکڑ سکتی ہے؟اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں امن بحال ہونا اس لیے اہم ہے کہ وہاں حالات ایسے ہوں کہ افغان مہاجرین واپس جاسکیں، اس کے بعد اگر کوئی عسکریت پسند یہاں سے کام کرتا ہے تو ہم ذمہ داری قبول کرسکیں گے.

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 27 لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں ہمارے لیے اس حوالے سے مکمل ضمانت دینا ممکن نہیں، ہم سرحد پر باڑ لگارہے ہو جوتقریباً مکمل ہوگئی ہے لیکن اس کے باوجود مہاجرین کی واپسی تک یہ ضمانت دینا ممکن نہیں ہے.عمران خان نے کہا کہ افغانستان کا تنازع ہمارے مفاد میں نہیں ہے، ہم افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امن چاہتے ہیں، قیامِ پاکستان سے قبل بھارت کے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی توجہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی جانب مبذول کرواتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا بھر میں قوم پرست جماعتیں، ایک اور انسانی برادری کو اپنے مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے سامنے آرہی ہیں اور بھارت میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے 2 قوانین متعارف کروائے گئے ہیں جو مستقبل میں ہمارے ملک کے لیے پریشانی کا باعث ہوگی کیونکہ یہاں مہاجرین کا ایک بڑا مسئلہ موجود ہے.قبل ازیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے 2 روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو تسلیم کرنا چاہیے کہ افغان مہاجرین کے لیے پاکستان کی کوششوں کے مقابلے میں پاکستان کے لیے عالمی حمایت بہت کم رہی ہے انتونیو گوتریس نے کہا کہ ہم یکجہتی اور ہمدردی کی قابل ذکر کہانی کا اعتراف کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں، ایسا کرنا اہم ہے کیونکہ یہ کہانی دہائیوں پر محیط ہے.انہوں نے کہا کہ 40 سال سے پاکستان نے افغان مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے انتونیو گوتریس نے کہا کہ 40 برس سے افغان عوام مسائل کا شکار ہیں، پاکستان میں افغان مہاجرین کی 40 سالہ میزبانی کی کہانی برادارنہ تعلقات اور قربانی کے جذبوں پر مبنی ہے.انہوں نے کہا کہ 40 سالوں سے افغانستان کے عوام نے کئی بحرانوں کا سامنا کیا ہے جبکہ کئی سالوں سے پاکستان کے عوام نے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ یہ سخاوت اب دہائیوں اور نسلوں پر محیط ہے جو دنیا کی تاریخ میں مہاجرین کا سب سے طویل عرصے تک جاری رہنے والا قیام ہے.انتونیو گوتریس نے کہا کہ یہ کہانی بھی میرے دل کے بہت قریب رہی ہے، جب میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر کے عہدے پر تھا اس عرصے کے دوران پاکستان زیادہ تر دنیا میں مہاجرین کی میزبانی کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر رہا.انہوں نے کہا کہ 1979 سے لے کر ہر 4 میں سے 3 سال پاکستان یا ایران مہاجرین کی میزبانی کرنے والے سب سے بڑے ملک میں شمار ہوتا رہااقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دنیا کے دیگر حصوں میں بڑے تنازعات سامنے آئے ہیں اور مہاجرین کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے لیکن پاکستان آج بھی مہاجرین کی میزبانی کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے.انتونیو گوتریس نے کہا کہ یہاں کے ہر دورے پر میں پاکستانی عوام کی دردمندی، غیر معمولی سخاوت سے متاثر ہوا میں نے نہ صرف ان کے الفاظ بلکہ ان کے عمل میں بھی دردمندی دیکھی یہ سخاوت، قرآن مجید کی سورہ توبہ میں مہاجرین کے تحفظ کی بہترین تفصیل کے عین مطابق ہے.اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ میں نے پاکستان میں اس دردمندی کا مظاہرہ دیکھا جو وژن کا حصہ بن گیا ہم نے دیکھا ہے کہ یہاں بائیو میٹرک رجسٹریشن، قومی نظام تعلیم تک رسائی ہیلتھ کیئر اور معیشت میں شمولیت کی پالیسیز کو متعارف کروایا گیا ہے.انتونیو گوتریس نے کہا کہ پاکستان کو درپیش کئی چیلنجز کے باوجود ان اقدامات کے آغاز سے ایک بہت بڑا فرق پڑا ان میں سے کئی کو مہاجرین کے حوالے سے اچھے طریقوں کے عالمی ماڈل کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ ان میں سے کچھ پالیسیوں نے عالمی سطح پر مہاجرین پر اثر اندار ہونے والے عناصر کو متاثر کیا ہمیں افغان مہاجرین کی میزبانی میں پاکستان کے ساتھ کام کرنے پر فخر ہے.اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستان کی قومی کوششوں کے مقابلے میں پاکستان کے لیے عالمی تعاون بہت کم رہا ہے انتونیو گوتریس نے کہا کہ ہم چیلنجز کا جائزہ لیں تو عالمی برادری کو آگے بڑھنا چاہیے، جیسا کہ ہم نے یکجہتی کے 40 اٹوٹ سال مکمل کیے ہیں ہم لڑائی کے 40 برس پر مایوس بھی ہیں.انہوں نے کہاکہ افغان تنازع بڑھتا چلا گیا اور ہم نے تنازع، غربت اور جبری نقل مکانی کے اثرات دیکھے ہم جانتے ہیں کہ افغان تنازع کا حل افغانستان میں ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ امن کے ممکنہ راستے کے اشارے افغانستان کے عوام کے بہتر مستقبل کا باعث ہوں گے.انہوں نے کہا کہ میں زلمے خلیل زاد کو اس سلسلے میں ہمارے ساتھ دیکھتا ہوں اور امن کے راستے پر گامزن ہونے کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتا ہوںانتونیو گوتریس نے کہا کہ افغانستان کے عوام امن کی کوششوں کی حمایت کے لیے اقوام متحدہ پر اعتماد کرسکتے، ہم یہاں صرف خدمت کرنے کے لیے ہیں.اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ افغانستان کے عوام کو امن، خوشحالی اور انسانی حقوق کے احترام کی ضرورت ہے اور یہ ان کا حق ہے قبل ازیں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کیلئے عالمی تعاون کی اشد ضرورت ہے.شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان 40 سال سے 30 لاکھ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے اور ہم آج بھی ان کی میزبانی کررہے ہیں اور یہ کوششیں مہمان نوازی کے اسلامی اصولوں پر مبنی ہیںوزیر خارجہ نے کہا کہ افغان مہاجرین کو اس برس بھی کانفرنس سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کا تعلق مشترکہ مذہب، ثقافت اور اقدار پر قائم ہے.انہوں نے کہا پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کو صحت، تعلیم اور فنی تربیت کی سہولیات مہیا کرتا آرہا ہے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، افغان امن عمل کی حمایت جاری رکھے گا، مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے افغانستان میں پائیدار امن بنیادی شرط ہے.انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی اور افغانستان کے معاشرے میں بحالی کے لیے عالمی تعاون کی اشد ضرورت ہے وزیر خارجہ نے کہا کہ مہاجرین کی واپسی میں تعاون اور اس کے فروغ کے لیے اور معاشرے میں افغان مہاجرین کی پائیدار تنظیم نو کی صلاحیت میں اضافے کے لیے پاکستان، ایران اور یو این ایچ سی آر کی جانب سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم قائم کیا گیا تھا.

وزیر خارجہ سے قبل مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلیپو گرینڈی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان مہاجرین واپس اپنے گھر جانے کے منتظر ہیں وہ گھر تعمیر کرنے، اپنے بچوں کو تعلیم دینے اور آزادانہ طریقے سے جینے کا حق رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان 22 سال کے طویل عرصے تک افغان مہاجرین کا سب سے بڑا میزبان رہا ہے، افغان مہاجرین کو بینک اکاو¿نٹس کھولنے کی اجازت دینے کا حالیہ اقدام خوش آئند ہے جس سے ان کی معاشی ہم آہنگی میں مدد ملے گی.

فلیپو گرینڈی نے کہا کہ گزشتہ 40 سالوں سے جیسا کہ ہم نے سنا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے افغان پڑوسیوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت بھی افغانستان کے عوام کے ساتھ کھڑا ہوا جب وہ استحکام کی تلاش میں وطن واپس لوٹ گئے تھے. فلیپو گرینڈی نے کہا کہ پاکستان، مشکلات، تنازعات اور غیر یقینی صورتحال کے موقع پر اور سالوں کی کوششوں سے ایک بکھری ہوئی قوم کی تعمیرِ نو کے ذریعے افغانستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل کو کامیابی سے سرانجام دینے کے لیے ابھی بہت کوشش کی ضرورت ہے.

واضح رہے کہ اسلام آباد میں پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے 40 سال یکجہتی کے لیے ایک نئی شراکت داری کے عنوان سے پاکستان میں 40 برس سے مقیم افغان مہاجرین کے حوالے سے عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے 2 روزہ عالمی کانفرنس 17 اور 18 فروری کو جاری رہے گی جس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور وزیراعظم عمران خان سمیت اہم ملکی اور عالمی شخصیات شریک ہیں.

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ہائی کمشنر فلیپوگرینڈی، تقریباً 20 ممالک کے وزرا اور اعلیٰ حکام جو دنیا بھر سمیت پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی مددکررہے ہیں کانفرنس میں شریک ہیں واضح رہے کہ عالمی کانفرنس کا انعقاد اہم موقع پر کیا گیا ہے جب افغانستان میں امن کے لیے کوششیں تیز ہوئیں ہیں اور ان میں اہم پیشرفت ہوئی ہے.