پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس، انسانی حقوق اور قانون و انصاف ڈویژن کے 2014-15ء اور 2015-16 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا

این سی ایس ڈبلیو میں تعیناتیوں و آلات کی خریداری میں تاخیرکی رپورٹ طلب

منگل 18 فروری 2020 15:17

پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس، انسانی حقوق اور قانون و انصاف ڈویژن ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 فروری2020ء) پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہائوس میں کمیٹی کی کنوینر سینیٹر شیری رحمن کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سینیٹر مشاہد حسین سید، خواجہ شہزاد محمود کے علاوہ متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ کمیٹی نے انسانی حقوق اور قانون و انصاف ڈویژن کے 2014-15ء اور 2015-16 کے آڈٹ اعتراضات کاجائزہ لیا۔

2014-15 ء کے دوران قانون و انصاف ڈویژن کے بجٹ میں بچتوں کی شرح میں اضافہ پر تشویش کا اظہر کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ مشرف دور میں انصاف تک رسائی کا ایک پروگرام شروع ہوا۔ اس پروگرام کے لئے بے پناہ وسائل بھی فراہم کئے گئے۔ سیکرٹری وزارت قانون و انصاف نے کہا ہے کہ پی اے سی اگر اس حوالے سے معلومات حاسل کرنے کی خواہش رکھتی ہے تو ہم تمام معلومات یکجا کرکے پی اے سی کو فراہم کر دیں گے۔

(جاری ہے)

سیکرٹری نے بجٹ سیونگز کے حوالے سے کہاکہ پہلے قانون و انصاف اور انسانی حقوق ڈویژن یکجا تھے۔ اب یہ علیحدہ علیحدہ ہو گئے ہیں۔ سیکرٹری انسانی حقوق ڈویژن نے کہا کہ ہم نے 35 ملازمین بھرتی کرنے تھے جس کے لئے 60 لاکھ روپے کی رقم مختص تھی۔ قومی کمیشن برائے مقام خواتین (این سی ایس ڈبلیو) کی جانب سے بتایا گیا کہ کمیشن کے قیام کے بعد کافی عرصہ تک قواعد نہ بننے سے بھرتیاں نہیں ہو سکیں اور یہ ادارہ فنکشنل نہیں ہوا۔

گزشتہ سال اس کے قواعد کو حتمی شکل دی گئی ۔ اس میں تاخیر کی وجہ سے ضابطہ کی کاروائیاں اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی اجازت تھی۔ شیری رحمن نے کہا کہ 107 آسامیاں خالی رہیں اور کام نہیں ہو سکا۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے ۔ اس معاملے پر ہم جواب سے مطمئن نہیں ہیں۔ علیحدہ اجلاس میں خاور ممتاز اور این سی ایس ڈبلیو کے حکام کو طلب کر یں گے۔ یہ ایک بہت بڑا سکینڈل ہے ۔

انہوں نے کہا کہ رولز سرکاری افسران نے بنائے ہوئے ہیں۔ پی اے سی پر قومی کشین برائے مقام خواتین کی طرف سے بتایا گیا قواعد کی تشکیل میں پانچ سال گزر گئے جس پر کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ پی اے سی کو بتایا گیا کہ جیسے بھی قواعد کو حتمی شکل دی گئی ہم نے 47 ملازمین بھرتی کر لئے۔ شیری رحمن نے کہاکہ یہ عورتوں کا کمیشن تھا اس لئے کسی کی ترجیح نہیں تھی۔

مشاہد حسین سید نے کہاکہ پی اے سی کاکام اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنا بھی ہے۔ شیری رحمن نے کہا کہ دال میں کالا ہے۔ پی اے سی کو بتایا گیا کہ ابھی بھی این سی ایس ڈبلیو میں 46 آسامیاں خالی ہیں۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ 107 تعیناتیاں کرنے کے علاوہ انہوں نے آلات بھی نہیں خریدے ۔ اس معاملے کی مکمل چھان بین کا حکم دیا جائے۔ کمیٹی کی کنوینر سینیٹر شیری رحمن نے کہاکہ یہ ادارہ ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ بہت سے خودمختار اداروں میں ہی ہو رہا ہے۔ کمیٹی نے آڈٹ اور این سی ایس ڈبلیو کو الگ الگ دو ہفتوں میں اس معاملے کی چھان بین کر کے پی اے سی کو تحریری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔