بھارتی وزیراعظم فلموں کے ڈائیلاگ نہ دھرائے ،فلمی ڈائیلاگ اور حقیقی دنیا میں ہونے والی جنگ میں فرق ہوتا ہے،سردار مسعود خان

مودی اور دنیا احساس ہونا چاہیے پاک بھارت جنگ ہوئی تو خطہ میں کچھ نہیں باقی بچے گا ،جنگ کے اثرات جنوبی ایشیا سے باہر کی دنیا کیلئے یکساں منفی اور تباہ کن ہوں گے،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دنیا کے طاقتور ممالک بغیر وقت ضائع کیے مداخلت کر کے بھارت کے ہاتھ روکیں ،صدر آزاد کشمیر

بدھ 19 فروری 2020 20:13

مظفرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 فروری2020ء) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی فلموں کے ڈائیلاگ نہ دھرائے ۔فلمی ڈائیلاگ اور حقیقی دنیا میں ہونے والی جنگ میں فرق ہوتا ہے ۔ بھارتی وزیراعظم اور دنیا کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوئی تو پھر اس خطہ میں کچھ نہیں باقی بچے گا اور جنگ کے اثرات جنوبی ایشیا سے باہر کی دنیا کے لیے یکساں منفی اور تباہ کن ہوں گے ۔

اس لیے ہم بار بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دنیا کے طاقتور ممالک سے کہتے ہیں کہ وہ بغیر وقت ضائع کیے مداخلت کر کے بھارت کے ہاتھ روکیں ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نسل کشی بند کرائیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائیں ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز ایوان صدر مظفرآباد میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے زیر اہتمام ہونے والی انٹرنیشنل ورک شاپ آن لیڈر شپ اینڈ سیکیورٹی کے شرکا کے ایک وفد سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ ڈائریکٹر جنرل اسرا آف نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی قیادت میں آنے والے وفد میں برطانیہ ، امریکہ ، روس ، نیوزی لینڈ ، برازیل ، کینیا ، ملائیشیا ، گھانا ، سری لنکا ، ہانگ کانگ اور پاکستان کے اراکین پارلیمنٹ ، سفارتکاروں ، ماہرین تعلیم ، میڈیا ، نمائندگان ، عالمی کمیونٹی کے چالیس سے زیادہ ارکان کے علاوہ پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ سے اپنے خطاب میں صدر نے کہا کہ ایک معمولی کرونا وائرس کی وجہ سے آدھی دنیا سرا سیمگی کا شکار ہو گئی ہے اور بھارت کا انتہا پسند وزیراعظم کہتا ہے کہ وہ ایٹم بم استعمال کر کے پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے سے مٹا دے گا ۔

دنیا بھی ہیرو شیما اور ناگا سا کی میںہونے والی تباہی و بربادی نہیں بھولی ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے آگے بڑھ کر مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کو نہ روکا ، کشمیریوں کو اُن کے جائز اور منصفانہ حق ، حق خود ارادیت نہ دلایا اور بھارتی حکمرانوں کے جنگی جنون کا نوٹس نہ لیا توپھر اس خطہ اور پوری دنیا میں امن و سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتینو گتریس کے اُس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں اُنہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو وہی حقوق اور شہری آزادیاں ملنی چاہیے جو آزاد کشمیر کے عوام کو حاصل ہیں ۔ صدر ریاست نے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ آزاد کشمیر میں نہ تو نو لاکھ فوج ہے اور نہ ہی یہاں کے لوگوں کو قتل ، معذور اور گولیاں برسا کر اندھا کیا جاتا ہے ۔

آزاد کشمیر کے لوگوں کو تمام بنیادی حقوق اور شہری آزادیاں حاصل ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام 1947 سے لے کر اب تک اپنا وہ بنیادی حق مانگ رہے ہیں جس کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی صورت میں عالمی برادری نے تسلیم کر رکھا ہے اور جس کا وعدہ بھارتی رہنمائوں نے اُن سے کر رکھا تھا ۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ کشمیریوں نے 1947 میں آزادی اور حق خود اختیاری کا جو نعرہ بلند کیا تھا وہ آج بھی اس پر قائم ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ بھارت کے موجودہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آزادی کا جو نعرہ سرینگر اور مقبوضہ کشمیر کے دوسرے شہروں میں لگتا تھا وہ نعرہ آج بھارت کے ایک سو شہروں میں روزانہ بلند ہو رہا ہے ۔ اُنہوں نے وفد کے ارکان کو بتایا کہ گزشتہ سال پانچ اگست کے بعد بھارت نے ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں چڑھائی کر کے اس پر قبضہ کیا ، ریاست کو محاصرے میں لے کر عوام کے بنیادی حقوق کو سلب کیا اور اب کشمیریوں کو یہ کہا جا رہا ہے کہ اُن کی زمین اب بھارت کی ملکیت ہے جہاں بھارتی ہندووں کو آباد کیا جائے گا۔

بھارت کی اس پالیسی کو لینڈ گریب پالیسی قرار دیتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت ایک منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ امریکہ نے پچاس کی دہائی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کے حوالہ سے قرار دادیں منظور کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ ایک بار پھر وہ کردار ادا کرے جس سے جموں و کشمیر کے عوام کے مصائب و مشکلات دور ہوں اور اس تنازعہ کی وجہ سے خطہ میں امن و سلامتی کو لاحق خطرات کم ہوں ۔

اُنہوں نے وفد کے شرکاء کے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر میں کوئی عسکری مدد نہیں ہو رہی ہے ۔ بھارت کے عسکری حکام خود تسلیم کر رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں دو اڑھائی سو عسکریت پسند کام کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ دو اڑھائی سو عسکریت پسندوں کا مقابلہ بھارت نے نو لاکھ فوج کیوں رکھی ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو عسکریت پسندوں سے نہیں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے نوجوانوں سے خطرہ ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے بھارت کے مظالم اور اپنے حقوق کے بارے میں دنیا کو بتا رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ بند کر رکھا ہے اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں پر بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کر کے جیلوں میں بند کیا جارہا ہے ۔