حکومت اور فوج تو ایک پیج پر ہیں لیکن عوام اس پیج سے باہر ہے، نواب محمد اسلم خان رئیسانی

بدھ 19 فروری 2020 23:26

تمبو(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 فروری2020ء) بلوچستان کے سابق وزیر اعلی چیف آف ساراوان اور رکن صوبائی اسمبلی نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے کہا ہے کہ حکومت اور فوج تو ایک پیج پر ہیں لیکن عوام اس پیج سے باہر ہے پتہ نہیں عوام کے پیج کون پڑھتا اور کون پڑھاتا ہے اور عوام کہاں اور کس کے پیج پر ہے موجودہ حکومت سمیت کسی بھی حکومت نے ملک اور عوام کے مفاد میں کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہے سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے جنہوں نے 1973 کا متفقہ آئین دیا اور آصف علی زرداری نے 18 ویں ترمیمی بل منظور کرایا جس سے صوبوں کو کچھ اختیارات حاصل ہوئے اور 73 کے آئین سے فیڈریشن کو مضبوط اور مستحکم کرنے میں مدد ملی ان خیالات کااظہار انہوں نے ساسولی قبیلے کے سربراہ مسلم لیگ ن کے سینیر رہنما اور ڈسٹرکٹ کونسل نصیر آباد کے سابق چیر مین سردار چنگیز خان ساسولی کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیے گے عشائیے میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا تقریب میں پی پی پی کے مرکزی رہنما سابق صوبائی وزیر میر محمد صادق عمرانی پی پی پی نصیر آباد کے ڈویژنل صدر میر بلال خان عمرانی میر جمیل احمد مینگل ،میرمحمداشرف مینگل، میرسبزعلی خان عمرانی،میرغلام عباس مینگل،میرنظام دین لہڑی و دیگر علاقای و قبالی عمائدین و معتبرین اور سیاسی و سماجی شخصیات کی کثیر تعداد اس تقریب میں شریک تھی نواب اسلم ریسانی نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے حقِ خود ارادیت کیلیے جدوجہد اور کوششیں کرے انہوں نے کہا کہ مسلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کسی بھی قسم کا کوی کردار ادا نہیں کر رہا ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سمیت کسی بھی حکومت نے ملک اور عوام کے مفاد میں کوئی خاص کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہے سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے جنہوں نے 1973 کا متفقہ آئین دیا اور آصف علی زرداری نے 18 ویں ترمیمی بل منظور کرایا جس سے صوبوں کو کچھ اختیارات حاصل ہوئے اور 73 کے آئین سے فیڈریشن کو مضبوط اور مستحکم کرنے میں مدد ملی انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ قومی وحدتوں کو مستحکم کرنے کیلیے وفاق کے پاس صرف دفاع ، کرنسی اور امورِ خارجہ کے محکمے ہوئے چاہیے باقی تمام محکمے اور اختیارات صوبوں کے پاس ہونے چاہیے جبکہ عام انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرائے جائیں تا کہ کسی ایک صوبے کی بالادستی نہ رہے کر کے الاٹمنٹ کے ریٹ طے کیے جائیں گے۔