وزیراعظم کا اٹارنی جنرل کے مستعفی ہونے پر ردِعمل

عدلیہ اور اداروں کا احترام کرتے ہیں،کسی نے بھی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی تو سخت کاروائی ہو گی۔وزیراعظم نے پارٹی ترجمانوں کو بھی ہدایات جاری کر دیں

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعرات 20 فروری 2020 15:14

وزیراعظم کا اٹارنی جنرل کے مستعفی ہونے پر ردِعمل
اسلام آباد (اردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین 20 فروری 2020ء ) پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انور منصور نے استعفیٰ صدر مملکت کو بھیج دیا ہے۔اٹارنی جنرل انور مسعود کے مستعفیٰ ہونے سے قبل وزیراعظم عمران خان کی قانونی ٹیم کے ارکان سے ملاقات کی۔ملاقات میں فروغ نسیم،شہزاد اکبر اور علی ظفر موجود تھے۔ملاقات کے دوران انور مسعود کے استعفی سے قبل مشاورت کی گئی،وزیراعظم کے زیر صدارت قانونی ٹیم کے اجلاس میں اٹارنی جنرل سے استعفی لینے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس حوالے سے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ عدلیہ اور اداروں کا احترام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ کے اداروں کا احترام کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے پارٹی ترجمانوں کی بھی ہدایت کی ہے کہ کوئی بھی عدلیہ کے حوالے سے بیان نہیں دے گا،عدلیہ کے حوالے سے بیان بازی برداشت نہیں کی جائے گی۔

(جاری ہے)

،وزیراعظم نے کہا کہ کسی نے بھی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی تو سخت کاروائی ہو گی۔

وزیر قانون فروغ نسیم اور معاون خصوصی شہزاد اکبر نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اٹارنی جنرل انور منصور سے استعفیٰ مانگا تھا ، جس پر انہوں نے عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔فروغ نسیم نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ دل میں عدلیہ کی بہت عز ت و احترام ہے۔حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل کے ایک بیان پر جواب جمع کرایا گیا جس میں کہا گیا کہ انور منصور کا بیان حکومت کا موقف نہیں ہے۔

جبکہ معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا کہ انور منصور نے حکومت کے کہنے پر عہدہ چھوڑا۔ حکومت کی جانب سے ریفرنس سے متعلق دلائل جاری ہیں۔خیال رہے کہ انور منصور نے استفعیٰ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہ مجھ سے پاکستان بار کونسل نے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ پاکستان بار کونسل نے اٹارنی جنرل انور منصور اور وزیر قانون فروغ نسیم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔ق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے دوران اٹارنی جنرل بیرسٹر انور منصور کے مبینہ متنازع بیان پر پاکستان بار کونسل نے اٹارنی جنرل انور منصور اور وزیر قانون فروغ نسیم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔