Live Updates

حکومت پنجاب کا رائے ونڈ سٹی مین بازار میں 156دکانوں کی شکل میں موجود اربوں ملکیت کمرشل اراضی نیلامی کا ڈرامہ رچا کر عرصہ دراز سے قابض ناجائز قابضین کو ہی مالکانہ حقوق پر دینے کا پلان بنالیا

صورت حال کے منظر عام پر آنے سے ہزاروں تاجر سراپا احتجاج بن گئے،وزیراعظم سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ حکومت نے یہ فیصلہ تنازعات سے بچنے کے لئے کیا ہے،اسسٹنٹ کمشنر اور کلکٹر رائیونڈ عدنان رشید

جمعرات 20 فروری 2020 22:47

رائے ونڈ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 فروری2020ء) حکومت پنجاب نے وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے برعکس رائے ونڈ سٹی مین بازار میں 156دکانوں کی شکل میں موجود اربوں روپے کی ملکیت کمرشل اراضی نیلامی کا ڈرامہ رچا کر عرصہ دراز سے قابض ناجائز قابضین کو ہی مالکانہ حقوق پر دینے کا پلان بنالیا۔صورت حال کے منظر عام پر آنے سے ہزاروں تاجر سراپا احتجاج بن گئے ۔

وزیراعظم سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا ۔ تفصیلات کے مطابق رائیونڈ مین بازار میں محکمہ لوکل گورنمنٹ کی ملکیت 156 دکانیں موجود ہیں جن کی مارکیٹ ویلیو اس وقت تقریبا 3ارب روپے کے لگ بھگ ہے جو کہ عرصہ دراز قبل سابق چیئرمین بلدیہ شیخ محمد اشرف مرحوم نے منظور نظر افراد کو 30سالہ لیز پر دی تھیں۔ مذکورہ دکانوں کی لیز 1997 کو ختم ہوگئی تھی، بلدیہ نے لیز معاہدہ کی متعددخلاف ورزیوں کی وجہ سے دکانوں کی لیز بڑھانے کی بجائے انہیں واگزار کروانے کی کوشش کی تو لیز ہولڈر عدالت میں چلے گئے اور عدالتی جنگ تین سال جاری رہی رہی بالآخر لیز ہولڈر ہار گئے۔

(جاری ہے)

فروری سال 2000 میں ڈپٹی کمشنر لاہور کیپٹن عارف ندیم نے ڈسٹرکٹ سیٹلمنٹ کمیٹی کا مقرر کردہ کرایہ حتمی قرار دے کر قانونی حیثیت میں معاہدہ کی شرائط پر پورا اترنے والے دوکانداروں کو آئندہ پانچ سال کے لیے کرائے دار بنادیا جبکہ معاہدہ کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کو ناجائز قرار دے کر ان کے دکانیں واگزار کروانے کا حکم جاری کیا گیالیکن جب اس حکم پر دکانیں واگزار کروانے کی کوشش کی گئی تو سیاست آڑے آگئی دوسری طرف قانونی حیثیت میں بیٹھے ہوئے افراد نے بھی مقرر کردہ کرایہ ماننے سے انکار کر دیاحالانکہ وہ مارکیٹ ویلیو کا تقریباً ایک چوتھائی تھا، آج تک سیاسی نمائندوں کی مداخلت کے باعث دوکاندار بغیر کسی معاہدہ کے دکانوں پر غیر قانونی طور پر قابض ہیں۔

23 سال کے اس عرصہ میں حلقہ رائیونڈ کے ایم پی ایز اور ایم ایز نے دکانوں کو آج تک واگزار کروانے نہیں دیا۔ عوامی شکایات پر نیب اور اینٹی کرپشن نے بھی کئی بار انکوائری شروع کی مگر اسے بھی نوٹوں کی بوریوں کے نیچے دبا دیا جاتا رہا۔ یہ عمل قابل ذکر ہے کہ مذکورہ 156 دکانداروں میں اکثریت ن لیگیوں کی ہے۔ اور نواز شریف کے آبائی حلقہ ہونے کی وجہ سے یہاں زیادہ ن لیگی ایم پی ایز اور ایم این ایز ہی منتخب ہوتے ہیں جو اپنے ووٹوں کو پکا کرنے کے لیے ان کی مسلسل سرپرستی کرتے رہے ہیں۔

2011 میں عوام کے شدید احتجاج کے باعث دوکانوں کو سربمہر بھی کردیا گیا۔ 13 دن دکانیں سربمہر رہیں۔ مگر پھر نون لیگی رہنمائوں کی مداخلت پر انہیں بغیر کسی کارروائی کے کھول دیا گیا۔ دکاندار ان حالات میں کبھی کبھار تھوڑی بہت رقم جمع کرواتے رہے۔ سیاسی نمائندے اپنے ووٹوں اور ارباب اختیار اپنے نوٹوں کی خاطر آج تک یہ مسئلہ لٹکائے ہوئے ہیں۔

1997 کے ڈسٹرکٹ تخمینہ کمیٹی کے مقررکردہ کرایہ کے مطابق وصولی کرنے کے باوجود بھی اس وقت تقریبا پانچ کروڑ روپے بقایا ہے۔ جب تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی سب سے پہلے سرکاری اراضی پر سے نا جائز قبضوں کو چھڑوانے کی کارروائی شروع کی تو تو اہل رائیونڈ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی مگر اب اچانک اسی حکومت نے قبضہ شدہ دوکانوں کو اسی حالت میں مالکانہ حقوق پر دینے کا فیصلہ کرلیا ہے حالانکہ قانونی طور پر اس پراپرٹی کو فروخت نہیں کیا جاسکتا۔

واضح رہے کہ 1964 میں جب یہ پراپرٹی غلہ منڈی سے ٹاؤن کمیٹی کو ٹرانسفر کی گئی تو معاہدہ میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ یہ پراپرٹی آگے کسی کو ٹرانسفر نہیں کی جاسکتی۔ صرف لیز یا کرایہ داری پر ہی دی جاسکتی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اب تحریک انصاف کی حکومت بھی مذکورہ ن لیگی ڈگر پر چلتے ہوئے اس ووٹ بینک کو اپنا بنانے کے لیے ن لیگیوں کی منفی پالیسیوں سے بھی آگے نکل گئی ہے۔

دکانوں کی غیرقانونی فروخت پر جب متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر اور کلکٹر رائیونڈ عدنان رشید سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ حکومت نے یہ فیصلہ تنازعات سے بچنے کے لئے کیا ہے۔ کیونکہ پرانے لیز لیٹر ہولڈر کرایہ جات نہیں دے رہے اس لیے یہ بہتر حل نکالا گیا ہے۔ انہوں نے 1964 کے فیصلہ کو رد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ فیصلہ پراپرٹی رولز 2018 کے مطابق کیا گیا ہے۔

اہل شہر نے اس اقدام پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے کرپشن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ قابض دکاندار سرکار کو دس سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ کرایہ دے رہے ہیں جبکہ اکثریت نے شکمی کرایہ دار بٹھا رکھے ہیں جن سے وہ ستر ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک کرایہ لے رہے ہیں۔ بیشتر نے اپنی دکانیں کروڑوں روپوں میں فروخت کردی ہیں۔

سب سے آخری دکان پچھلے ماہ اڑھائی کروڑ میں فروخت ہوئی ہے۔کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایک مخصوص قبضہ مافیا پورے شہر کی مشترکہ جائیداد کو خرید و فروخت کر کے کروڑ پتی بن گیا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ایسے لگتا ہے کہ رائیونڈ علاقہ غیر ہے اور یہاں جنگل کا قانون رائج ہے۔ یاد رہے کہ 23 سال قبل وزیراعظم وقت میاں محمد نواز شریف نے بھی ن لیگ کا ووٹ بینک بنانے کے لیے بغیر کسی قانونی کارروائی کے مذکورہ دوکانوں کو کوڑیوں کے بھاؤ دینے کا ڈائریکٹو جاری کر دیا تھا۔

لیکن عوامی حلقے شدید احتجاج کرتے ہوئے عدالت عدلیہ تک جا پہنچے تھے جس پر یہ ڈائریکٹو منسوخ کردیا گیا۔ اب تحریک انصاف کی حکومت نے تمام قانونی تقاضوں کو پس پشت ڈال کر اپنے ہی دعوؤں کے برعکس سرکاری زمین کو واگزار کروانے کی بجائے قابضین کو دینے کا فیصلہ کرلیا ہے جو کہ قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تبدیلی کا نعرہ لے کر آنے والی حکومت قیمتی سرکاری کمرشل اراضی کو ناجائز قابضین سے واگزار کروائے اور پھر فروخت کی بجائے کرایہ کی بنیاد پراس کی سر عام نیلامی کروائی جائے۔ اس طرح رائیونڈ کا یہ اثاثہ بھی محفوظ رہے گا اور ہر ماہ خزانہ میں بھی اتنی رقم ہوجائے گی کہ یہاں کے مسائل کے حل کے لئے کسی بھی دیگر فنڈز کی ضرورت نہیں رہے گی۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات