عمران خان کو کرکٹ کھیلنے اور حکومت چلانے میں فرق نظر آگیا ہے اب انہیں حقائق کو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے،حافظ حسین احمد

Umer Jamshaid عمر جمشید ہفتہ 22 فروری 2020 16:52

عمران خان کو کرکٹ کھیلنے اور حکومت چلانے میں فرق نظر آگیا ہے اب انہیں ..
جہلم (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 فروری2020ء،نمائندہ خصوصی،طارق مجید کھوکھر) جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی ترجمان اور سابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ عمران خان کو کرکٹ کھیلنے اور حکومت چلانے میں فرق نظر آگیا ہے اب انہیں حقائق کو تسلیم کرنا پڑ رہا ہے، ملک کا معاشی طور پر دیوالیہ نکل چکا ہے، سلیکٹرز کواب اپنی غلط سلیکشن پر غور کرنا ہوگا، شہباز شریف حکومت کو گھر بھیجنے سے پہلے خوداپنے گھر تشریف لائیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ عمران خان کو اب کرکٹ اور حکومت میں فرق نظر آرہا ہے آہستہ آہستہ ان کوتمام حقائق تسلیم کرنا پڑ رہے ہیں، کرکٹ میں سلیکشن اور میچ فکسنگ ہوتی ہے جس کا عمران نیازی کو کافی تجربہ ہے اور 2018ء کے انتخابات میں بھی سلیکشن اور میچ فکسنگ کی گئی مگر سیاست اور حکومت کی پیچ پر ایسی بدترین معاشی صورتحال میں بیٹنگ کرنا انہیں مشکل لگ رہا ہے اس لیے انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ کرکٹ اور حکومت میں بڑا فرق ہے، گگلی مارکر اور امپائر کو ساتھ ملا کر کسی کو آوٴٹ کرنا آسان ہے مگر پیچ پر آکر بیٹنگ کرنا مشکل ہے، عمران خان سمجھے تھے کہ امپائر کو ساتھ ملا کر وہ سب کو آوٴٹ کریں گے اور میدان ان کا ہوگا مگر یہ اتنا آسان نہیں، انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپنے 18 ماہ میں مہنگائی، معیشت کی تباہی سے عوام کا جو حال ہوا ہے جس کا اعتراف حکومت خود کررہی ہے ایسے اعتراف کے بعد سلیکٹروں کو بھی سوچنا ہوگا کہ ان کی سلیکشن کتنی غلط ثابت ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کہہ رہے کہ وہ حکومت کو گھر بھیجیں گے تو وہ اس سلسلے میں ضرور جدوجہد کریں ہم ان کا ساتھ دیں گے لیکن عمران خان کو گھر بھیجنے سے پہلے پہلے وہ خود اپنے گھر پاکستان آجائیں کیوں کہ جب تک اپوزیشن لیڈر کا منصب خالی ہوگا، آصف زرداری جیل اور اسپتال میں ہونگے میاں نواز شریف اور شہباز شریف لندن میں ہونگے اور مریم نواز نے چپ کا روزہ رکھاہوگا ہو تو عمران خان اور اس کی پارٹی اپنی غلطیوں کی وجہ سے گھر جائیں تو جائیں مگر اپوزیشن کے اس سے منتشر رہنے سے ان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا، انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے مارچ میں تحریک چلانے کا تو کہا ہے مگر سال کا نہیں بتایا بلاول بھٹو زرداری نے جنوری اور شہباز شریف نے نومبر میں تحریک چلانے کی بات کی تھی یہ دونوں مہینے تو گذر چکے ہیں اپوزیشن کی دونوں جماعتوں کی مصلحت اور مصالحت کا انجام تو ہم نے دیکھ لیا ہے وہ مارچ میں کیسے مارچ کریں گے اس کا تو ابھی تک تو انہوں نے کوئی روڈ میپ بھی نہیں دیا، اپوزیشن جماعتوں کو مارچ سے پہلے اپنی پوزیشن کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے تحریک کا اعلان کیا تو جے یو آئی انہیں کبھی مایوس نہیں کرے گی۔