ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی محتاط خریداری

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 100 روپے کی کمی کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 9000 روپے کے بھا ؤپر بند کیا

ہفتہ 22 فروری 2020 19:38

ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی محتاط خریداری
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2020ء) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی محتاط خریداری رہی خصوصی طور پراعلی کوالٹی کی روئی میں خاصی زیادہ خریداری رہی ہلکی کوالٹی کی روئی میں نسبتا کم خریداری رہی گو کہ دن بدن روئی کا اسٹاک بھی کم ہوتا جارہا ہے فی الحال جنرز کے پاس روئی کی صرف 7 لاکھ گانٹھوں کا اسٹاک موجود ہے جس میں آعلی کوالٹی کی روئی بہت کم رہ گئی ہے کئی ملز نے اپنی ضرورت کی روئی کی خریداری بڑھا دی ہے جس کی وجہ سے ہفتہ کے دوران کاروباری حجم نسبتا ٹھیک کہا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب ٹیکسٹائل کے بڑے گروپ درآمدی روئی پر انحصار کررہے ہیں بیرون ممالک سے روئی کی ڈیلوری ہورہی ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملز کی ادائیگیاں ہورہی ہے۔

(جاری ہے)

کپاس کے نجی درآمد کنندگان کے مطابق بیرون ممالک سے روئی کی فی الحال 48 لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدے کرلئے گئے ہیں دن بدن مزید معاہدے بھی کئے جارہے ہیں APTMA کے ذرائع کے کہنے جی مطابق ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی مقامی ضرورت پوری کرنے کیلئے بیرون ممالک سے روئی کی تقریبا 55 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنی پڑے گی۔

صوبہ سندھ و پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 7000 تا 9200 روپے رہا پھٹی کا بھاؤ صوبہ سندھ میں فی 40 کلو 2800 تا 4100 روپے صوبہ پنجاب میں 3000 تا 4500 روپے رہا جبکہ کپاس کی فصل کم ہونے کی وجہ سے بنولہ، بنولہ تیل اور کھل کے بھا ؤمیں نسبتا استحکام رہا۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 100 روپے کی کمی کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 9000 روپے کے بھا ؤپر بند کیا۔

کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ چین میں کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کی مارکیٹیں متاثر ہورہی ہیں تاہم چین کے کہنے کے مطابق 2 مارچ سے چین امریکا کیلئے تقریبا 700 آئٹمز پر ٹیرف میں رعایت کا اعلان کرنے والا ہے جس کے سبب نیویارک کاٹن کے وعدے کے بھاؤ میں تقریبا 2 امریکن سینٹ کا اضافہ ہوگیا ہے یہ بھی اطلاعات ہے کہ چین امریکا سے دوبارہ روئی درآمد کرے گا۔

جبکہ چین میں فی الحال غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے کاروبار متاثر ہورہا ہے جس کے منفی اثرات کپاس اور ٹیکسٹائل مصنوعات پر بھی نظر آرہے ہیں۔بھارت میں روئی کا بھاؤ بدستور کم ہوتا جارہا ہے۔ بھارت کے کپاس کے برآمد کنندگان کپاس کی برآمد پاکستان سے شروع کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں کیوں کہ پاکستان بھارتی روئی کا بڑا درآمد کنندگان رہ چکا ہے۔

مقامی ٹیکسٹائل مصنوعات کی مانگ و دام مستحکم ہے کمپوزیٹ ملز کی صورت حال نسبتا اچھی ہے بہر حال صرف اسپننگ ملز کا کاٹن یارن فروخت کرنے میں مشکل حائل ہے۔کپاس کی آئندہ فصل 21-2020 کی پیداوار کیلئے موجودہ روایتی مشکلات جس میں ناقص بیج، ناقص ادویات، فصل کو شدید نقصان پہنچانے والی گلابی سنڈی، سفید مکھی اور دیگر وائرس کے علاوہ دو بڑی مشکلات سامنے آنے والی ہے اگر فوری طورپر ان کا تدارک نہ کیا گیا تو کپاس کی پیداوار مزید کم ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے سبسے بڑا مسئلہ آئندہ سیزن کیلئے کپاس کی بوائی کیلئے سرٹیفائڈ بیج کا فقدان ہے اس وقت جو بیج دستیاب ہے اس کی جرمنیشن (Germination) تشویش ناک حد تک کم ہے عام حالات میں جرمنیشن (Germination) 70 تا 80 فیصد ہوتی تھی اس سال کپاس کی فصل خراب ہونے کی وجہ سے بیج بھی صحت مند نہیں ہے۔

کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ کئی سیڈ کمپنیوں نے کپاس کے بیج کی فروخت کیلئے جو ایڈوانس رقم لی ہوئی تھی اوہ معزرت کے ساتھ واپس کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ صحت مند بیج کا فقدان ہونے کے سبب ہم کم پیداواری صلاحیت رکھنے والے بیج نہیں دے سکتے۔ کئی سیڈ کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ Federal Seed Certification and Registration Department سے استدعا کی ہے کہ موجودہ کم پیداوار کے حامل دستیاب بیج جو 40 تا 50 فیصد جرمنیشن کی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں سرٹیفائڈ کیا جائے تا کہ ہم اسے فروخت کر سکے۔

کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ کپاس بلکہ تمام فصلوں کو "ٹڈی دل" کے حملوں کا ڈر ہے جو فصلوں کیلئے ناقابل تلافی نقصان کے حامل ہوسکتے ہیں۔ حکومت کے متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ وہ ان معاملات پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرے ورنہ آئندہ سیزن میں کپاس کے بحران کا شدید خطرہ ہے۔ حکومت نے گندم کی فصل کے تحفظ کے لئے ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے ایمرجنسی نافذ کی ہوئی ہے گندم کی فصل کے فورا بعد کپاس کی فصل کی بوائی شروع ہوجائے گی کپاس کے پودے بہت نازک ہوتے ہیں ٹڈی دل اس کو ناتلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں اس لئے کپاس کی فصل کیلئے گندم کی فصل کی طرح ٹڈی دل کے تدارک کیلئے ایمرجنسی جاری رکھی جائے۔

اپٹما کے ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کے عزم کے خلاف توانائی کے ادارے توانائی کی مد میں کمی نہیں کررہے اپٹما والے شکایات کررہے ہیں لیکن نادارد۔ اپٹما کے کہنے کے مطابق بھارت کی ٹیکسٹائل صنعت نے 20 ارب ڈالرز کی مارکیٹ پکڑنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے دوسری جانب گراں پاور ٹیرف نے پاکستان کیلئے امکانات کو گھٹا دیا ہے۔ بھارت کے لیے مواقع پیدا ہونے کی وجہ چین میں پھیلنے والا کورونا وائرس ہے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش اور ویتنام کے لیے بھی یکساں مواقع دستیاب ہوئے ہیں جبکہ پاکستان میں صنعتی پیہ چلنے کے لئے ناگزیر توانائی کے دام تمام محصولات شامل کرنے کے بعد 7.5 سینٹ فی یونٹ سے بڑھ کر 13 سینٹ فی یونٹ ہوگئے ہیں۔

یہ خوفناک صورتحال نہ صرف بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی جگہ بنانے کے لئے ناموزوں ہے بلکہ پاکستان دیگر ممالک کے ساتھ مسابقت سے باہر ہوگیا ہے۔ صنعتی جمود کی کیفیت کے باعث بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیلنے کا خدشہ ہے جس سے بے چینی اور سماجی مسائل جنم لیں گے یہ بات اپٹما کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شاہد ستار نے جمعہ کو وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داد کے نام لکھے گئے خط میں کہی تھی۔