سعودی عرب پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے

معروف انگریز کالم نگار نے سعودی حکمرانوں پر اصولوں کی بجائے مفادات کی پالیسی پر گامزن ہونے کا الزام دھر دیا، مقبوضہ کشمیر پر بھی اندر کھاتے بھارت کا ساتھ دینے پر محمد بن سلمان کو آڑے ہاتھوں لے لیا

Muhammad Irfan محمد عرفان پیر 24 فروری 2020 15:14

سعودی عرب پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے
ریاض(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24فروری 2020ء) پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی بے مثال اور لازوال ہے۔ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی سفارتی، دفاعی اور معاشی محاذ پر کھُل کر مدد کی ہے۔ تاہم مڈل ایسٹ آئی اخبار کے ایک معروف آسٹریلین کالم نگار سی جے ورلیمن نے سعودی عرب پر پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کھیلنے کا الزام دھر دیا ہے۔سی جے ورلیمن نے اپنے کالم میں آغاز میں کہا ہے کہ موجودہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی مملکت اصولوں کی بجائے مفادات اور منافع کی پالیسی کو ترجیح دے رہی ہے۔

ورلیمن کے مطابق سعودی عرب خود کو اسلام کا محافظ قرار دیتا ہے، اور اس دعویٰ کو سچا ثابت کرنے کے لیے اسلامی ممالک کو ہر سال بڑھ چڑھ کر مالی امداد بھی دیتا ہے تاکہ وہ مسلم دُنیا کا غیر متنازعہ طور پراکلوتا قائد اور رہنما کہلوا سکے۔

(جاری ہے)

1975ء سے 2005ء کے دوران سعودی مملکت کی جانب سے اسلامی دُنیا کو مجموعی طور پر 90 ارب امریکی ڈالر کی امداد دی گئی، جو اس کی کُل سالانہ آمدنی کا 3.7 فیصد بنتا ہے۔

ورلیمن کے خیال میں موجودہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جو درحقیقت مملکت کے تمام معاملات خود ہی دیکھ رہے ہیں اور سارے فیصلے بھی اُنہی کی جانب سے لیے جا رہے ہیں، وہ سعودی مملکت کے سابق فرمانرواؤں کی طرح مسلم دُنیا کے مسائل اور معاملات کے حوالے سے حساس نہیں ہیں، بلکہ وہ بڑی بے حسی کے ساتھ صرف سیاسی، معاشی اورسٹریٹجک مفادات کو سامنے رکھ کر چل رہے ہیں۔

محمد بن سلمان کے دور میں سعودی عرب کی سابقہ کٹڑ اسلامی شناخت تبدیل ہو کر سعودی قومیت پرستی میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اس تبدیلی کا مقصد سعودی فرماں رواؤں پر مُلا شاہی کا گہرا اثر و نفوذ اور کنٹرول ختم کرنا ہے۔ کیونکہ مملکت کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہی سعودی مملکت نے مسلم ممالک کو اپنے بہت قریب کر رکھا تھا۔ موجودہ سعودی حکومت کا مقصد ریاست کے زیر انتظام تیل کی معیشت کو سراسر کاروباری انداز سے چلانا ہے۔

ورلیمان نے الزام لگایا کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ بھی ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ چند ماہ قبل جب بھارت کی جانب سے مسلم اکثریت والے مقبوضہ کشمیر سے اس کی نیم خود مختار حیثیت چھین لی گئی اور اس کے بعد کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات سامنے آئے تو پاکستان نے سعودی عرب سے او آئی سی کا خصوصی اجلاس بلانے کی درخواست کی جو سعودی حکمرانوں نے رد کر دی۔

7فروری 2020ء کو پاکستان کی جانب سے دوسری بار درخواست کی گئی کہ کشمیر کے مسئلے پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا ہنگامی اجلاس بُلایا جائے۔ تاہم سعودی عرب نے ایک بار پھر پاکستان کی یہ درخواست مسترد کر دی۔ سعودی حکمرانوں کے اس بے حس رویئے کی وجہ سے ہی وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو یہ کہنا پڑا کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر او آئی سی کا اجلاس بُلا کر یکجہتی بھی ظاہر نہیں کر سکتے۔

دُنیا بھر میں سعودی عرب کے اس رویئے پر تنقید کی گئی تو اگلے روز ہی سعودی عرب نے سفارتی یو ٹرن لیتے ہوئے اعلان کیا کہ سعودی مملکت کشمیر کے تنازعے کے حل کے لیے پاکستان سے بھرپور تعاون کرے گی۔ اس مقصد کے لیے او آئی سی کا پلیٹ فارم بھی استعمال کیا جائے گا۔ ورلیمان نے مزید لکھا ہے کہ اس یقین دہانی کے باوجود سعودی عرب کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے 80 لاکھ مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ذرہ برابر احساس کا بھی اظہار نہیں کیا گیا۔

حتیٰ کہ نریندر مودی کی جانب سے کشمیر میں ہندوؤں کی کالونیاں بنانے کے منصوبے اور اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے مغربی کنارے پر یہودیوں کی آبادکاری کے اسرائیلی منصوبے کو بھی سعودی حکومت کی جانب سے ان کا داخلی مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔ کشمیر کے معاملے پر سعودی عرب کی اس خاموشی کی وجہ بھارت کو تیل کی بڑے پیمانے پر سپلائی ہے۔ بھارت کو تیل کی سپلائی کرنے کے معاملے میں سعودی عرب دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔

گزشتہ سال اکتوبرمیں ریاض اور نئی دہلی کے درمیان نئے تجارتی معاہدے طے پائے۔ خصوصاً بھارت کو تیل کی بلاتعطل فراہمی کے میکنزم کو بھی بہتر بنانے کے لیے پالیسی وضع کی گئی ہے۔ اگلے چند سالوں اور دہائیوں میں بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات میں مزید قربت دکھائی دے رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ان تعلقات کا خمیازہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو بھُگتنا پڑے گا۔

آسٹریلوی کالم نگار کے مطابق بھارت اپنی ایک ارب سے زائد افراد کی مارکیٹ کی وجہ سے سعودی عرب کے لیے تجارتی لحاظ سے بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ورلیمن نے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر سعودی عرب کی بے حسی اور خاموشی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور فلطسینی عوام کے مقابلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسی کی درپردہ حمایت پر بھی شدید اعتراضات اُٹھائے ہیں۔