مسجد ابراہیمی میں نمازیوں کا قتل عام 26 سال بعد بھی جاری

واقعے نے مسجد ابراہیمی کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کرنے کی راہ ہموارکی،رپورٹ

بدھ 26 فروری 2020 14:35

مسجد ابراہیمی میں نمازیوں کا قتل عام 26 سال بعد بھی جاری
الخلیل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 فروری2020ء) انتہا پسند اور ننگ آدمیت صہیونی جنونی دہشت گرد نے فلسطین کی تاریخ مسجد ابراہیمی میں داخل ہو کر نماز فجرکے وقت اللہ کے حضور سجدہ ریزنمازیوں پر اندھا دھند حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 29 نمازی شہید اور 150 زخمی ہوگئے۔ یہ حملہ ایک انتہا پسند یہودی باروکھ گولڈچائن نے کیا جس کے بعد مسجد ابراہیمی کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔

میڈیارپورٹس کے مطابق یہ 15 رمضان المبارک کی 1994ء کی ایک خونی صبح تھی۔ یہودی دہشت گرد نے مسجد میں نماز ادا کرنے والے سیکڑوں نمازیوں پر فوجی وردی پہن پر تین میگزین خالی کیے اور مسجد کو بے گناہوں اور معصوموں کے خون سے رنگ دیا۔

(جاری ہے)

اس وحشیانہ قتل عام کے بعد بچ جانے والے نمازیوں نے یہودی دہشت گرد پرحملہ کرکے اسے بھی جھنم واصل کردیا۔مسجد کے باہر اس وقت بھی یہودی فوجیوں کا پہرہ تھا۔

انہوں نے مسلمان نمازیوں کو مسجد سے باہر نکلنے سے روک دیا جب کہ باہر سے مدد کے لیے آنے والوں کو بھی اندر نہ آنے دیا گیا۔ اس مجرمانہ واقعے کے خلاف فلسطین بھر میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑ گئی اور ملک میں ہنگامی پھوٹ پڑے۔ اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی اور مسجد میں وحشیانہ قتل عام کے بعد شہداء کی تعداد 50 تک جا پہنچی۔