میر علی وزیرستان کے دکانداروں اور مارکیٹ مالکان راہنمائوں کا پریس کلب بنوں کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ،اے سی کا تبادلہ فوری رکوانے کا مطالبہ

جمعہ 28 فروری 2020 18:26

بنوں(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 فروری2020ء) میر علی وزیرستان کے دکانداروں اور مارکیٹ مالکان راہنمائوں کا دکانات کا معاوضہ نہ ملنے اور اے سی میرعلی کے تبادلے کے خلاف پریس کلب بنوں کے سامنے کے لئے احتجاجی مظاہرہ ۔

(جاری ہے)

اے سی عبدالقیوم کا تبادلہ سمجھ سے باہر قرار دیااور اس تبادلے کو فوری رکوانے کا مطالبہ کیا مظاہرہ کے بعد ہنگامی پریس سے خطاب کرتے ہوئے ٹریڈ یونین تحصیل میر علی کے صدر ذہین اللہ خان ، نائب صدر ارفاق اللہ ، حاجی عبداللہ خان ، احمد اللہ ملک افتاب خان ، محمد ابراہیم ، سمیع اللہ خان ، رحمان گل ، پراپرٹی ایسوسی ایشن کے صدر بوستان خان اور نائب صدرطاہر اللہ نے کہا کہ میرعلی میں چھ ہزار سے زائد دکانات تھے جس میں مقامی لوگ بھی تھے اور غیر مقامی لوگ بھی کاروبار کر رہے تھے ضرب عضب کے دوران ہمیں اپنے دکانات سے سامان نکالنے کے لئے بہت کم مہلت ملی جس کی وجہ سے تمام قیمتی سامان دکانات میں ہی تباہ ہو گیا جو کروڑوں مالیت کا تھا حکومت نے میرعلی کے تین ہزار کے قریب دکانداروں کے کچھ نقصانات کا ازالہ تو کیا گیا لیکن ہزاروں کی تعداد میں متاثرین تاجر اب بھی معاوضہ کے لئے ترس رہے ہیں اسی طرح میرعلی میں ضرب عضب اپریشن کے دوران مارکیٹوں کا مالکان کا کافی نقصان ہوا ہے اور ان کے کروڑوں مالیت کے پلازے اور مارکیٹیں مسمار کر دی گئی تھیں ان لوگوں کے نقصانات کا ازالہ ابھی تک نہیں کیا گیا اور ان لوگوں نے جو اھتجاج شروع کیا ہے ہم ان کے مکمل حمایت کرتے ہیں اور ان کے لوگوں سے اس وقت تک کھڑے ہوں گے جب تک ان کو معاوضہ نہ دیا جائے انہوں نے کہا کہ ہم دکانداروں نے وزیرستان میں جاری مظاہرہ کو اے سی عبدالقیوم کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں موخر کر دیا تھا لیکن اس کو اچانک تبدیل کر دیا گیا ہے جس کا ہم ایک ہی مطلب لے سکتے ہیں کہ حکومت دکانداروں اور مارکیٹ مالکان کو معاوضہ دینے میں سنجیدہ نہیں انہوں نے اے سے کے تبادلے کو فوری رکوانے کا مطالبہ کیا انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ شمالی وزیرستان کے لوگ جنگ زدہ ہیں اور یہاں لوگوں کا معاش بری طرح متاثر ہے اس لئے ضم ہونے کے بعد اس کو کچھ عرصہ کے لئے فری ٹیکس علاقہ قرار دیا جائے اور غلام کسٹم چیک پوسٹ کو سیدگی چیک پوسٹ منتقل کیا جائے تاکہ یہاں کے لوگوں کی معاشی صورت حال بہتر ہو سکے اور اگر ہمارے مطالبات منظور نہ کئے گئے تو ہم ایک بار احتجاج پر مجبور ہوں گے اور یاجروں کے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلیں گے لیکن اس بار احتجاج بھر پور احتجاج ہوگا ۔