افغانستان میں 19سالہ خونی جنگ کا خاتمہ ہوگیا؟

امریکا اتحادیوں کے ساتھ ملکر پوری طاقت استعمال کرکے بھی افغانستان جیسے چھوٹے اور کمزور ملک کو زیرکرنے میں ناکام رہا. مبصرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم اتوار 1 مارچ 2020 10:08

افغانستان میں 19سالہ خونی جنگ کا خاتمہ ہوگیا؟
دوحہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم مارچ۔2020ء) افغانستان میں 19سال جاری رہنے والی جنگ میں ایک لاکھ افغانوں اور 35سو اتحادی فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں جبکہ امریکا کو مجموعی طور پر 2ہزار ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھانا پڑا2001میں نوگیارہ کے واقعات کے بعد امریکا نے افغانستان میں اس واقعے کے ذمے داران کو کیفرکردار تک پہنچانے کا جواز بنا کر اپنے اتحادیوں کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا.

امریکا کا ساتھ دینے والے بین الاقوامی اتحاد(نیٹوفورسز) نے 2014 میں اپنی افواج کو واپس بلانا شروع کردیا اوراپنی سرگرمیاں صرف افغان فوج کی تربیت تک محدود کردیں.

(جاری ہے)

افغان طالبان 2001 میں پسپا ہونے کے بعد دوبارہ منظم ہونا شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ ان کی کارروائیوں میں تیزی آنے لگی 2019 کے صرف آخری چار ماہ میں افغان طالبان نے 8204 حملے کیے جو ایک دہائی میں اس دورانیے میں ہونے والی سب سے زیادہ کارروائیاں تھیں.

کارروائیوں کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں امریکی ایئر فورس نے 7423 بم اور میزائل داغے جو 2006کے بعد سے سب سے زیادہ تعداد بنتی ہے. گزشتہ پانچ برسوں میں افغان سیکیورٹی فورس کے 50ہزار سے زائد اہلکاروں کی ہلاکتیں ہوئیں اور ہزاروں زخمی ہوئے جبکہ نیٹو افواج کے 3550 فوجی ہلاک ہوئے جن میں2400امریکی تھے 20 ہزار امریکی فوجی زخمی ہوئے.

افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ امن معاہدے نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے .15 اکتوبر 1999کو طالبان کے خلاف کاروائیوں کا آغاز ہوا جب اقوام متحدہ نے قرار داد نمبر1267 کے ذریعے القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروپ قرار دے کر ان پر پابندیاں عائد کر دیں9 ستمبر، 2001 شمالی اتحاد کے سربراہ اور امریکا اور اتحادیوں کے سب سے بڑے حامی احمد شاہ مسعود کو قتل کردیاگیا 11 ستمبر 2001 کو3 امریکی جہاز وں کونیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور واشنگٹن میں پینٹا گون سے ٹکرا دیا گیا جبکہ چوتھا جہاز ریاست پنسلوانیا میں کھیتوں میں گر گیا مبینہ ہائی جیکروں کا تعلق مصر اور سعودی عرب سے بتایا گیا ا س واقع کی ذمہ داری اسامہ بن لادن پر عائد کی گئی اور اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے طالبان سے القاعدہ راہنماﺅں کی حوالگی کا مطالبہ کیا.

18ستمبر،2001 صدر جارج ڈبلیو بش نے امریکہ کے دونوں ایوانوں کی منظور شدہ قرار داد پر دستخظ کر دیے جو انہیں امریکی شہریوں کے تحفظ کے لیے جنگ سمیت تمام ممکنہ اقدامات کی اجازت دیتی تھی سات اکتوبر2001امریکہ نے برطانوی فوج کی مدد سے افغانستان میں مستقل آزادی کے نام سے فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا کینیڈا، جرمنی اور فرانس نے بھی تعاون کا یقین دلایاابتدا میں فضائی حملے کیے گئے اور ایک ہزار امریکی کمانڈوز کو شمالی اتحاد اور طالبان مخالف گروہوں کی مدد کے لیے بھیجا گیا جبکہ باقاعدہ فوج اس کے 12 روز بعد بھیجی گئی.

نومبر2001 عبدالرشید دوستم کی فوجوں نے جیسے ہی مزار شریف سے طالبان کا قبضہ چھڑایا تو اس کے بعد طالبان پسپا ہونے شروع ہو گئے بامیان اور تعلقان 11 نومبر، ہرات 12 نومبر،کابل 13 نومبراور جلال آباد 14 نومبر کو طالبان سے آزاد کروا لیے گئے 14 نومبر کو اقوام ِمتحدہ نے ایک قرار داد پاس کی جس کے تحت افغانستان میں نگران افغان حکومت کے قیام میں اقوام متحدہ کا اہم کردار ہو گا اقوام متحدہ کے رکن ممالک افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنی افواج بھیجیں گے.دسمبر2001 اسامہ بن لادن کابل سے تورہ بورہ فرار ہو گئے، جہاں پر تین سے 17 دسمبر تک پہاڑوں میں افغان ملیشیا کے ساتھ ان کی جنگ جاری رہی جس میں کئی جنگجو مارے گئے.16 دسمبر کو اسامہ کے 20 قریبی لوگ تورہ بورہ میں گرفتار ہو گئے اور اسامہ بن لادن گھوڑے پرفرار ہو نے میں کامیاب ہو گئے تورہ بورہ میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کے باوجود امریکہ نے وہاں کوئی کارروائی نہیں کی‘ تورہ بورہ میں القاعدہ کے خلاف نبرد آزما جنگی کمانڈروں حضرت علی،حاجی زمان اور حاجی ظاہر نے اسامہ بن لادن کے فرار پر امریکہ کو موردالزام ٹھہرایا.

پانچ دسمبر، 2001طالبان کی کابل سے پسپائی کے بعد اقوام متحدہ نے افغانستان کے تمام گروہوں جن میں شمالی اتحاد اور افغانستان کے سابق شاہ بھی تھے انہیں بون میں مدعو کیا جہاں شرکا بون معاہدے پر متفق ہو گئے اس معاہدے کے لیے ایران نے اہم کردار ادا کیا حامد کرزئی کونگران حکومت کا صدر منتخب کیا گیا.نو دسمبر،2001 طالبان نے قندھار میں بھی ہتھیار ڈال دیے جس سے افغانستان سے طالبان دور کا خاتمہ ہوگیا ملا عمر شہر سے فرار ہو پہاڑوں پر چلے گئے.مارچ 2002 پکتیا صوبہ کی شاہی کوٹ وادی میں طالبان اور القاعدہ کے 800 سے زائد جنگجوو¿ں کے خلاف آپریشن ایناکونڈالانچ کیا گیا، جس میں دو ہزار امریکی اور ایک ہزار افغان فورسز نے حصہ لیالیکن اسی عرصے میں امریکہ کی توجہ افغانستان کی بجائے عراق پر مرکوز ہو گئی.

17اپریل، 2002 صدر جارج ڈبلیو بش نے ورجینیا ملٹری انسٹیٹیوٹ سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کی تعمیر نو کا اعلان کیا جس کے تحت 2001 سے 2009 تک امریکی کانگریس نے افغانستان کو 38 ارب ڈالرز کی امداد دی.جون 2002 حامد کرزئی جو کہ افغانستان کی عبوری انتظامیہ کے چیئرمین کے طور پر دسمبر 2002 سے کام کر رہے تھے، انہیں لویہ جرگہ کے ذریعے ملک کی عبوری انتظامیہ کا سربراہ بنایا گیا جس کا انعقاد کابل میں کیا گیا تھا، جس میں افغانستان کے 364 اضلاع سے 1550 نمائندوں نے شرکت کی.اس میں 200 خواتین بھی شامل تھیں حامد کرزئی پشتون قبیلے درانی کی شاخ پوپلزئی سے تعلق رکھتے تھے وہ 11 ستمبر کے بعد پاکستان سے افغانستان لوٹے تھے کچھ مبصرین نے حامد کرزئی پر اپنے قبیلے کی طرف داری کا الزام عائد کیا شمالی اتحاد جس میں اکثریت تاجکوں کی تھی وہ وزیراعظم کے نام پر متفق نہ ہو سکے تاہم وہ حکومت میں بہت موثر گروپ کے طور پر موجود رہے.

نومبر2001 امریکی فوجوں نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے اقوام متحدہ اور این جی اوز کے ساتھ مل کر صوبوں میں کام کا آغاز کیا اس مقصد کے لیے پہلے گردیز پھر بامیان،قندوز،مزار شریف اور ہرات میں کام شروع کیا گیا بعد میں اس کی نگرانی کا ذمہ نیٹو نے لے لیا لیکن یہ ماڈل کامیاب نہ ہو سکا.مئی 2003 کابل میں گفتگو کرتے ہوئے امریکہ کے وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے کہا کہ افغانستان میں مشن مکمل ہو گیا ہے اور اب کوئی بڑا خطرہ نہیں انہوں نے کہا کہ صدر بش، سینٹ کام کے سربراہ جنرل ٹومی فرینک اورافغان صدر حامد کرزئی جنگ کے بعد وسیع تر امن مرحلے پر متفق ہوئے ہیں جس کے تحت تعمیر نو کا مرحلہ شروع کیا جائے گا اس وقت تک افغانستان میں صرف8 ہزار امریکی فوجی باقی رہ گئے تھے باقی فوجوں کو امریکا نے افغانستان سے عراق بجھوادیا 8اگست، 2003: افغانستان میں انٹرنیشنل سیکورٹی فورسز (ایساف) کا کنٹرول نیٹو کے پا س تھا یہ یورپ کے باہر نیٹو کی پہلی سرگرمی تھی جس نے پہلے کابل اور اس کے نوح میں سیکورٹی کی ذمہ داری لی بعد میں نیٹو نے ستمبر 2005،پھر جولائی 2006 اور اکتوبر 2006 میں اپنی سرگرمیوں کو وسعت دی.ایساف کے فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا شروع میں 42 ممالک سے پانچ ہزار فوجی تھے جو بڑھ کر 65 ہزار تک پہنچ گئے، جن میں نیٹو کے 28 رکن ممالک بھی شامل تھے‘جنوری 2004 افغانستان کے 502 اراکین کی اسمبلی افغانستان کے آئین پر متفق ہو گئی جسے جمہوریت کے فروغ کے لیے اہم گردانا گیاافغانستان میں امریکہ کے سفیر زلمے خلیل زادہ نے کہا کہ اس سے افغانستان میں قومی انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی ہے.

نو اکتوبر،2004 حامد کرزئی عام انتخابات میں اکثریت سے صدر منتخب ہو گئے انہوں نے 55 فیصد ووٹ حاصل کیے ان کے مقابلے میں یونس قانونی نے 16 فیصد ووٹ لیے افغانستان میں 1969 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ انتخابات ہوئے، اس سے پہلے عام انتخابات ظاہر شاہ کے دور میں ہوئے تھے 23مئی، 2005 امریکی صدر بش اور افغان صدر کرزئی نے امریکہ اور افغانستان کے مابین ایک سٹریٹجیک معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد امریکہ کو افغانستان کی فوجی تنصیبات تک رسائی حاصل ہو گئی اور امریکہ کو افغانستان کی سلامتی کا ضامن قرار دیا گیا معاہدے کی رو سے امریکہ افغانستان کی فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ اس کی معیشت اور سیاسی استحکام کا بھی ضامن ہو گا.18ستمبر، 2005 60 لاکھ سے زائد افغان ووٹروں نے ولوسی جرگہ (کونسل آف پیپلز)مشرانو جرگہ(کونسل آف ایلڈرز)اور مقامی کونسلوں کے لیے ووٹ ڈالے ان انتخابات کوافغانستان میں سب سے شفاف انتخابات قرار دیا گیا تقریباً آدھی رائے دہندگان خواتین تھیں ایون زیریں کی249 میں سے 68 سیٹیں جبکہ ایوان بالا کی 102 نشستوں میں سے 23 خواتین کے لیے مخصوص تھیں.

جولائی 2006 موسم گرما میں ملک بھر میں تشدد کی کارروائیوں میں اضافہ ہو گیا خود کش حملے جن کی تعدا د2005 میں 27 تھی وہ بڑھ کر 2006 میں 139 ہو گئے، جبکہ ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ دیکھا گیا جو بڑھ کر 1677 ہو گئے. نومبر2006 نیٹو اراکین افغانستان میں فوجوں کی تعیناتی پر کسی اتفاق ِرائے میں ناکام ہو گئے نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے 2008 میں افغانستان کا کنٹرول افغان نیشنل آرمی کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا.جب افغانستان میں امدادی کارکنوں پر حملے بڑھے تو نیٹو کے رکن ممالک نے اپنی افواج کے لیے مزید اختیارات کا مطالبہ کیا امریکہ کے ڈیفنس سیکرٹری رابرٹ گیٹس نے نیٹو رکن ممالک پر مزید فوج بھیجنے پر زور دیا اور کہا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہماری اب تک حاصل کی گئی کامیابیاں خاک میں مل جائیں گی.مئی 2007 طالبان کے اہم کمانڈر ملا داداللہ جنوبی افغانستان میں، افغان، امریکہ اور نیٹو کے ایک مشترکہ آپریشن میں ہلاک ہو گئے وہ ہلمند میں طالبان فورسز کے کمانڈر تھے 22اگست، 2008 افغانستان اور اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے ہرات میں امریکہ کے گن شپ ہیلی کاپٹر کے ذریعے درجنوں اموات کی تصدیق کی ا س کے علاوہ صوبہ فرح میں ایسی ہی کارروائی میں140 عام شہری نشانہ بن گئے جس کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل میک کرسٹل نے امریکی فضائی کارروائیوں کے طریقہ کار پر نظر ثانی کی.

17 فروری، 2009 امریکہ کے نو منتخب صدر باراک اوبامہ نے افغانستان میں 17 ہزار مزید فوجی بھیجنے کا اعلان کر دیا جنوری 2009 تک افغانستان میں 37 ہزار امریکی فوجی موجود تھے سیکرٹری ڈیفنس رابرٹ گیٹس نے کہا کہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا جائے گا.27 مارچ، 2009 صدر اوبامہ نے ایک نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں کامیابی کا دارومدار مستحکم پاکستان پر ہے، ساتھ ہی کہا کہ پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کیا جائے گا.اپریل 2009 نیٹو اراکین کی دوروزہ کانفرنس اپریل کے آغاز میں ہوئی جس میں مزید پانچ ہزار فوجی بھیجنے پر اتفاق کیا گیا جو افغانستان میں تعمیر نو کے ساتھ ساتھ افغان فوج اور پولیس کی تربیت بھی کریں گے11 مئی، 2009 سیکرٹری آف ڈیفنس رابرٹ گیٹس نے افغانستان میں جنرل ڈیوڈ میکرنن کی جگہ انسداد دہشت گردی کے ماہر جنرل میک کرسٹل کو ذمہ داری سونپ دی.

جولائی 2009 امریکہ فوج نے جنوبی افغانستان جن میں ہلمند شامل تھا، میں ایک بڑا آپریشن لانچ کر دیا جس میں چار ہزار فوجیوں نے حصہ لیا آپریشن کا مقصد حکومتی عمل داری میں اضافہ اور طالبان اثرو رسوخ کا خاتمہ تھا.نومبر2009 دو ماہ کی غیر یقینی کیفیت کے ساتھ 20 اگست کو صدارتی انتخابات ہوئے جس میں حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی میں مقابلہ ہوا انتخابات کی شفافیت سوالیہ نشان بن گئی.اقوام متحدہ کے کمیشن نے قرار دیا کہ کرزئی نے 49پوائنٹس اور 67 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ کامیابی کے لیے 50 فیصد ووٹ لینا ضروری ہوتا ہے جس پر کرزئی نے سات نومبر کو دوبارہ الیکشن پر آمادگی ظاہر کر دی لیکن الیکشن سے ایک ہفتہ قبل کرزئی کے مد مقابل عبداللہ عبداللہ دستبردار ہو گئے، جس کی وجہ سے کرزئی کو کامیاب قرار دے دیا گیا سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے کرزئی پر نظام حکومت بہتر بنانے اور کرپشن کے خاتمے پر زور دیا.یکم دسمبر2009 اوبامہ نے ایک تقریر میں افغانستان میں مزید 30 ہزار فوج بھیجنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ ہماری فوجیں افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے بعد جولائی 2011 سے انخلا شروع کر دیں گی.23 جون، 2010 جنرل میک کرسٹل کو اختلافات کی بنیاد پر ذمہ داریوں سے سبکدوش کر کے ان کی جگہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو افغانستان میں امریکی فوج کا کمانڈر مقرر کر دیا گیا‘نومبر2010 لزبن میں ایک کانفرنس میں نیٹو اراکین اس بات پر متفق ہو گئے کہ 2014 کے اختتام تک افغانستان کے امن کی تمام تر ذمہ داری افغان فورسز کے حوالے کر دی جائے گی.

22جون، 2011 صدر اوبامہ نے اعلان کیا کہ 2012 کے موسم گرما تک 33 ہزار امریکی فوج افغانستان سے واپس آ جائے گی اوبامہ نے تصدیق کی کہ امریکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں شریک ہے. سات اکتوبر،2011 امریکہ کی افغانستان میں جنگ کو دس سال ہو چکے تھے صدر اوبامہ نے 2014 تک تمام امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کر دیا 10 سال کی جنگ میں 1800 امریکی فوجی ہلاک ہوئے جبکہ 444 ارب ڈالر اس جنگ کی نذر ہو گئے حامد کرزئی نے برہان الدین ربانی جو کہ امن مذاکرات میں حکومت کے نمائندہ تھے ان کی ہلاکت کے بعد مذاکرات معطل کر دیئے اور ان کے قتل کا الزام حقانی نیٹ ورک پر لگایا.پانچ دسمبر 2011 جرمنی نے افغانستان کی جنگ کے 10 سال کے بعد وہاں مستقبل کے تعین کے لیے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں درجنوں ممالک شریک ہوئے حامد کرزئی نے کہا کہ افغانستان کو سالانہ 10 ارب ڈالرز امداد کی ضرورت ہو گی تاہم کانفرنس کوئی روڈ میپ دینے میں ناکام رہی پاکستان جو کہ اس تنازع کا اہم فریق تھا اس نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی.مارچ 2012 جنوری میں طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے قطر میں ایک دفتر قائم کیا تاہم دو ماہ بعد طالبان نے یہ کہہ کر مذاکرات ختم کر دیے کہ امریکہ ایک قیدی کی رہائی کا وعدہ پورا نہیں کر رہا اس دوران امریکی افواج کی طرف سے قرآن پاک کے جلائے جانے پر فسادات پھوٹ پڑے جس پر حامد کرزئی کو بیان دینا پڑا کہ غیر ملکی افواج کو اڈوں تک محدود کر دیا جائے گا‘جون 2013 نیٹو افواج نے افغانستان کا کنٹرول افغان فورسز کے سپرد کر دیا اور امریکی فوجوں کا کردار صرف انسداد دہشت گردی کے خصوصی آپریشنز اور افغان فوج کی تربیت تک محدود ہو کر رہ گیا اس کے ساتھ ہی امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا اعلان سامنے آیا.

27 مئی، 2014 صدر اوبامہ نے افغانستان سے امریکی انخلا کا منصوبہ پیش کر دیا اور کہا کہ 2016 کے اختتام تک زیادہ تر امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی‘21 ستمبر،2014 نئے افغان صدر اشرف غنی حزب مخالف کے رہنما عبداللہ عبداللہ کے ساتھ شراکت اقتدار کے ایک معاہدے پر متفق ہوئے جس کے لیے امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے اہم کردار ادا کیا تھا.

اشرف غنی عبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دینے پر راضی ہو گئے یہ عہدہ عبداللہ عبداللہ کے لیے تخلیق کیا گیا تھا تاکہ دونوں مل کر افغانستان میں استحکام کے لیے کام کر سکیں 13 اپریل، 2017 صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ نے ننگرہار میں داعش کے مشتبہ جنگجوﺅں کے خلاف سب سے طاقتور بم استعمال کیااسی دوران طالبان کے حملوں میں بھی بہت اضافہ دیکھا گیا، جس کے بعد ہلمند کوایک بار پھر امریکی فوج کے حوالے کر دیا گیا.21 اگست، 2017 صدر ٹرمپ نے آرلنگٹن ورجینیا میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم افغانستان سے انخلا چاہتے ہیں لیکن دہشت گردوں کو خلا پر کرنے کا موقع نہیں دیں گے، اس لیے انخلا کا انحصار زمینی حقائق پر ہو گا‘انہوں نے بھارت کو افغانستان میں کردار ادا کرنے کا کہا جبکہ پاکستان پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اب بند ہو چکے ہیں.

جنوری 2018 طالبان نے کابل میں کئی حملے کیے جن میں 115 سے زائدافراد ہلاک ہو گئے یہ حملے ایسے وقت ہوئے جب ٹرمپ اپنے افغان پلان پر عمل کر رہے تھے انہوں نے افغانستان کے دیہات میں فوجی تعینات کیے افغانستان میں ہیروئن کی لیبارٹریوں پر فضائی حملے کیے گئے تاکہ طالبان کو ملنے والے پیسے کو روکا جائے ٹرمپ نے پاکستان کی فوجی امداد بھی روک دی.فروری 2019 امریکہ اور طالبان کے مابین دوحہ مذاکرات کامیابی کے نزدیک پہنچ گئے ان مذاکرات میں امریکہ کی جانب سے زلمے خلیل زاد اور طالبان کی نمائندگی ملا عبدالغنی برادر کر رہے تھے‘دونوں فریقین میں اتفاق کیا گیا کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد طالبان افغانستان کی سرزمین کو امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے طالبان انٹرا افغان ڈائیلاگ میں شریک ہوں گے جو ملک کے سیاسی ڈھانچے اور جنگ بندی سمیت دیگر امور کا فیصلہ کرے گا.سات سمتبر، 2019 طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد صدر ٹرمپ نے مذاکرات کا عمل روک دیا اور ایک ٹویٹ میں کہا کہ ان کی کیمپ ڈیوڈ میں افغان صدر اشرف غنی اور طالبان کے درمیان ہونے والی خفیہ ملاقات بھی اب نہیں ہو گی طالبان نے کہا کہ مذاکرات کے تعطل سے تشدد میں اضافہ ہو گا.13 فروری، 2020: امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے اعلان کیا کہ مذاکراتی عمل میں بریک تھرو ہو گیا ہے اور طالبان رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ نے ان کے مطالبات تسلیم کر لیے ہیں‘29 فروری، 2020 کو آخرکار قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں اب دیکھنا ہے کہ امریکا معاہدے پر قائم رہتا ہے یا ماضی کی طرح بہانہ بناکر معاہدے کو ختم کرنے کی کوشش کرئے گا تاہم افغان امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا کے معاشی حالات اجازت نہیں دیتے کہ وہ ا س جنگ کو مزید جاری رکھ سکے.