Live Updates

گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے لگائے ہوئے ہیں،بلاول بھٹو

آئی ایم ایف والے آ کر اپنے ہی نمائندے سے گفتگو کر کے چلے جاتے ہیں، معیشت کی وہ صورتحال نہیں تھی جو مسلم لیگ (ن) والے بتاتے تھے، ان کی اپنی پالیسی تھی وہ ادھار کے پیسے پر معیشت چلاتے تھے، موجودہ حکومت نے 15ماہ میں معیشت کا برا حال کر دیا ہے، نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے کے زور پر ٹیکس اکٹھا نہیں ہو سکتا، شہری چور نہیں ہیں ٹیکس کا نظام چور ہے، ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے،چیئرمین پیپلز پارٹی

پیر 9 مارچ 2020 22:31

گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے لگائے ہوئے ہیں،بلاول ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 مارچ2020ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے لگائے ہوئے ہیں، آئی ایم ایف والے آ کر اپنے ہی نمائندے سے گفتگو کر کے چلے جاتے ہیں، معیشت کی وہ صورتحال نہیں تھی جو مسلم لیگ (ن) والے بتاتے تھے، ان کی اپنی پالیسی تھی وہ ادھار کے پیسے پر معیشت چلاتے تھے، موجودہ حکومت نے 15ماہ میں معیشت کا برا حال کر دیا ہے، نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے کے زور پر ٹیکس اکٹھا نہیں ہو سکتا، شہری چور نہیں ہیں ٹیکس کا نظام چور ہے، ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’ حالیہ معاشی بحران اور حل ‘‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

سیمینار سے ڈاکٹر حفیظ پاشا، شاہد کاردار، قیصر بنگالی، روبینہ سہگل اور ڈاکٹر قیس اسلم نے بھی خطاب کیا ۔اس موقع پر قمر زمان کائرہ، اعتزاز احسن، اسلم گل، چوہدری منظور، حسن مرتضیٰ اور دیگر بھی موجود تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ِموجودہ حکومت میںمعیشت کا سانس تک نکال لیا گیا ہے، ہمیں پاکستان کو ڈاکومنٹڈ معیشت کی طرف لے کر جانا ہے لیکن ایک سال میں پاکستان کی معیشت کو کیسے ڈاکومنٹڈ کیا جا سکتا ہے یہ مرحلہ وار اور صبر آزما کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے لگائے ہوئے ہیں، آئی ایم ایف والے آ کر اپنے ہی نمائندے سے گفتگو کر کے چلے جاتے ہیں، حکومت عوام کے معاشی حقوق کے لیے کوئی فلاحی منصوبہ لے کر نہیں آئی، آئی ایم ایف کا بوجھ عوام آدمی پر نہیں ڈالا جا سکتا،اگر آج بھی حکومت دوبارہ آئی ایم ایف سے گفت و شنید کرے تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔

حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ غیر حقیقت پسندانہ معاہدہ کیا ہے برسر اقتدار آکر نظرثانی کریں گے ،حکومت کی ناکام پالیسوں کا بوجھ عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا۔انہوں نے کہا کہ نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے کے زور پر ٹیکس اکٹھا نہیں ہو سکتا، سندھ نے ایک سال کے علاوہ ہر بار اپنا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف پورا کیا، سندھ کی سالانہ ٹیکس جمع کرنے کی شرح 22 فیصد ہے، شہری چور نہیں ہیں ٹیکس کا نظام چور ہے، ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے، ہمیں معاشی انصاف کی طرف جانا پڑے گا۔

انہوں نے کہاکہ وفاق سندھ کو اس کا مکمل حصہ نہیں دے رہا، نواز شریف کے دور میں بھی سندھ کو پورا حصہ نہیں ملا تھا، ہم حکومت میں آ کر منصوبہ بندی نہیں کریں گے، ہمیں آج بھی معلوم ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کا نعرہ تھا ایڈ نہیں ٹریڈ، ہم تین بارڈر بند کرکے ملکی معیشت کو نہیں چلا سکتے،اب وقت آگیا ہے کہ اپنے ہمسائیوں سے تجارت کی جائے،معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہمسایہ ممالک سے تجارت کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے زرعی ملک کو گندم درآمد کرنے والا ملک بنا دیا ہے، ہمیں عوام کو معیشت میں اسٹیک ہولڈر بنانا ہو گا، صرف چند کاروباری افراد کو تحفظ دے کر معیشت کو نہیں چلایا جا سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن لڑا، معیشت کی وہ صورتحال نہیں تھی جومسلم لیگ (ن) والے بتاتے تھے، مسلم لیگ ن والے ادھار کے پیسے پر معیشت چلاتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کا معیشت چلانے کا اپنا طریقہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ 15 ماہ میں حکومت نے معیشت کا برا حال کر دیا ہے، حکومت اس وقت معاشی پالیسیوں کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے،سفید پوش طبقے سے پوچھیں کہ وہ زندگی کس طرح گزار رہا ہے۔ڈاکٹر حفیظ پاشا نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئی حکومت نے 80 فیصد ٹیکسز کا بوجھ عوام پر ڈالا ہے ،انکم ٹیکس کے نظام میں معمولی تبدیلی آئی ہے، حکومت نے امیر لوگوں کو 1200 ارب روپے کی چھوٹ دی رکھی ہے، آئی ایم ایف کے پاس جانا حکومت کی مجبوری تھی۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار 3200 ارب روپے کی سود کی ادائیگی ہو گی، وفاق کے سارے خرچے قرضوں سے پورے ہو رہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس اصلاحات لائے، ان اصلاحات کا بوجھ امیر افراد پر پڑنا چاہیے نہ کہ عوام پر ڈالا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ تحریری معاہدہ ہے کہ 900 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائیں گے۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ معاشی خود مختاری نہ ہو تو سیاسی خود مختاری بھی ختم ہو جاتی ہے، اسی لیے سعودیہ عرب نے کہا کہ ملائشیا ء میں کانفرنس میں شرکت نہ کریں،معیشت اتنی کمزور ہے کہ مزید ٹیکس نہیں لیا جا سکتا،مزید ٹیکس لیں گے تو اور کاروبار بند ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم 100 ڈالر برآمد کرتے ہیں تو 230 ڈالر کی چیزیں درآمد کرتے ہیں، ہمیں مہنگی چیزوں کی درآمد پر پابندی لگانا ہو گی، صنعتکار کارخانے بند کر کے اسٹاک ایکسچینج میں پیسہ لگا رہے ہیں، حکومت کی پالیسیوں نے پروڈکٹو معیشت کو کسینو پالیسی بنا دیا ہے۔

انہوںنے کہا کہ نیشنلائزیشن کی پالیسی نے اس ملک کی معیشت کو سہارا دیا، نیشنلائزیشن نے معیشت کو نقصان پہنچایا یہ بالکل جھوٹ ہے، پاکستان وسائل کے اعتبار سے امیر ملک ہے لیکن ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج ملک اس نہج پر پہنچا ہے۔ ڈاکٹر شاہد حفیظ کاردار نے کہا کہ کوئی مانے نہ مانے آج ملک میں آئی ایم ایف کاپروگرام ہے ،ملک میں یہ مسائل آج کے نہیں ہیں،پینتیس سال کا ملبہ راتوں رات ٹھیک نہیں ہو سکتا ،مسئلے کا حل تھا ہمیں اصلاحات کے لئے وقت ملتا ،آج 68 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس لگے ہوئے ہیں،نظام کو پیچیدہ بنا دیا گیا ہے جس سے سب کو دشواری ہو رہی ہے ،سب سے بڑے قرضے لینے والی حکومت پاکستان کی ہے ،قرضے بڑھنے سے نقصان معیشت کاہو رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سود کی شرح روپے کی قدر کے دفاع کے لیے بڑھائی ،اسحاق ڈار صاحب نے مارکیٹ میں ڈالر پھینک کر روپے کو بچانے کی کوشش کی ،سود کی شرح کم کئے بغیر قرضے واپس نہیں ہو سکتے ۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات