قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ، ریونیو و اقتصادی امور کا اجلاس، ٹیکسٹائل کے برآمد و درآمد کنندگان، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش مسائل اور ری فنڈز، ری بیٹس اور قومی شناختی کارڈ کے حوالے سے تاجروں کے مسائل کا جائزہ لیا گیا

جمعرات 12 مارچ 2020 23:15

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 مارچ2020ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ، ریونیو و اقتصادی امور کا 38 واں اجلاس جمعرات کو یہاں کمیٹی کے چیئرمین فیض اللہ کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ کمیٹی کے اجلاس میں ٹیکسٹائل کے برآمد و درآمد کنندگان، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو درپیش مسائل اور ری فنڈز، ری بیٹس اور قومی شناختی کارڈ کے حوالے سے تاجروں کے مسائل کا جائزہ لیا گیا۔

آئی آر ایس کی رکن سیما شکیل نے برآمد کنندگان کی جانب سے ریفنڈز کے مسائل اجاگر کرنے اور ان کے حل کے لئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر کمیٹی کو بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے فارم ’ایچ‘ کے تکنیکی مسائل کے خاتمہ کے حوالے سے برآمد کنندگان اور ایف بی آر کے اعلیٰ حکام پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جس نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے تاہم برآمد کنندگان کا موقف ہے کہ وہ گزشتہ چھ ماہ سے ایف بی آر سے ری فنڈز کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے کاروباری مشکلات کا شکار ہیں، برآمد کنندگان نے ایف آر ایس کی خامیوں کو بھی اجاگر کیا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے درخواست کی کہ پاکستان کی برآمدی صنعت کو بہتر انداز میں چلانے کے حوالے سے ری فنڈ کے مسائل کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔

(جاری ہے)

سیما شکیل نے مزید کہا کہ ری فنڈز کے زیادہ تر کیسز کی ادائیگی کی جا چکی ہے تاہم صرف وہی کیس التواء میں ہیں جن کی مطلوبہ ضروریات پوری نہیں کی گئیں۔ انہوں نے دسمبر 2019ء تک جاری کئے گئے ری فنڈز کی تفصیلات کے ماہوار اعداد و شمار بھی پیش کئے۔ انہوں نے 11 فروری 2020ء کو آر ٹی او کراچی میں اجلاس کے دوران تاجروں کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کے حوالے سے کہا کہ ایف بی آر نے زیادہ تر مسائل حل کر دیئے ہیں۔

کمیٹی کے اجلاس میں تفصیلی غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ری فنڈز کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں۔ کمیٹی نے مزید کہا کہ برآمدی صنعت قومی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کسٹم حکام کی جانب سے ریلائنس پٹرولیم پرائیویٹ لمیٹڈ کی سیکورٹی کی وصولی کے معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ چیف کلکٹر کسٹمز کراچی نے اس حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کیا۔

کمیٹی نے تفصیلی مشاورت کے بعد کلکٹر کسٹمز کراچی کو ہدایت کی کہ وہ 17 مارچ 2020ء کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی سب کمیٹی کے اجلاس سے قبل اس مسئلے کو حل کریں۔ غیر منقولہ جائیداد کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ویلیو ایشن ٹیبل کے باعث ریئل اسٹیٹ کے شعبے کو درپیش مشکلات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ پاکستان ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ فورم کے صدر شعبان الٰہی نے کمیٹی کو بتایا کہ ایف بی آر کو کراچی سمیت ملک بھر کے مختلف علاقوں میں اس حوالے سے اٹھائے گئے خدشات پر غور کرنا چاہیے۔

انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ بلڈرز سے صارفین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے۔ انہوں نے مزید کہاکہ منظور شدہ منصوبہ سے ہٹ کر بلڈرز زیادہ فلیٹس یا پلاٹس فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس مسئلہ پر فوری اقدامات کرے۔ آئی آر پالیسی کے ممبر نے بتایا کہ شراکت داروں کو درپیش ویلیو ایشن کے مسائل کے خاتمہ کے لئے 21 مختلف شہروں میں کمشنر سطح کی مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت کے حوالے سے حکومت کی پالیسیز اور اس کے فوائد کا بھی جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی نے کہا کہ کم خرچ گھروں کی تعمیر کی پالیسی سے قومی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ لاہور اور فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرلز، وفاقی ترقیاتی ادارے ممبر پلاننگ نے اپنے رولز اور ریگولیشنز کے حوالے سے کمیٹی کو آگاہ کیا۔

اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی فہیم خان، قیصر احمد شیخ، علی پرویز، ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، ڈاکٹر نفیسہ شاہ، ڈاکٹر رمیش کمار وینکوانی، سردار نصر اللہ دریشک اور مخدوم سمیع الحسن گیلانی کے علاوہ وزارت خزانہ، ریونیو و اقتصادی امور، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارتی، فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور وفاقی ترقیاتی ادارے کے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔