ڈر ہے کہ وائرس سے پہلے بھوک سے نہ مر جائیں،بھارتی عوام

کروڑوں کی تعداد میں دیہاڑی پر کام کرنے والوں کو اسی ہی صورت حال کا سامنا ہے،شہریوں کی گفتگو

جمعہ 27 مارچ 2020 23:10

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 مارچ2020ء) عالمی سطح پر پھیلنے والی کرونا وبا کے بعد بھارت میں لاک ڈائون سے پریشان عوام حکومت کے خلاف پھٹ پڑے اورشکایات کے انبارلگادیئے ،شہریوں نے کہاہے کہ کرونا وائر سے سے موت ہو یا نہ ہومگر حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں اس سے شہر ضرورمر جائیں گے،بھارتی ٹی وی کے مطابق اترپردیش کے ضلع بندا سے تعلق رکھنے والے رمیش کمار نے کہا کہ وہ جانتے تھے کہ ان کو آج دیہاڑی پر لے جانے والا کوئی نہیں ملے گا لیکن پھر بھی انھوں نے اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ وہ چھ سو روپے روزانہ کماتے ہیں اور ان کی کفالت میں پانچ افراد ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چند دنوں میں ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔انہوں نے کہاکہ کروڑوں کی تعداد میں دیہاڑی پر کام کرنے والوں کو اسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے اعلان کردہ لاک ڈان کا مطلب یہ ہے اگلے تین ہفتوں تک انھیں کام ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

حقیقت میں بہت سے لوگوں کے پاس کچھ دنوں میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔کئی ریاستی حکومتوں نے جن میں شمال مغرب میں اتر پردیش، جنوب میں کیرالا اور دارالحکومت نئی دہلی شامل ہیں کہا ہے کہ وہ مستحق لوگ کے بینک کھاتوں میں براہ راست امدادی رقوم منتقل کریں گی۔محمد صابر کا دہلی میں دودھ اور دہی کا چھوٹا سا سٹال ہے۔ انھوں نے بتایا کہ گرمیوں میں کام زیادہ ہونے کی امید پر انھوں نے دو افراد کو کام پر رکھا تھا۔

اب میں ان کو تنخواہ نہیں دے سکتا۔ میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے۔ گاں میں ہمارے خاندان کی کچھ کھیتی باڑی ہے جہاں سے انھیں کچھ رقم مل جاتی تھی لیکن اس مرتبہ ڑالہ باری سے فصل تباہ ہو گئی اور وہ بھی مدد کے لیے اب میری طرف دیکھ رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو بالکل بے بس محسوس کرتے ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ کورونا سے پہلے وہ بھوک سے مر جائیں گے۔

تیج پال کشیپ کا جو دلی کے تاریخی انڈیا گیٹ پر فوٹوگرافی کر کے روزگار کماتے تھے، کہنا تھا کہ انھوں نے کاروبار کے کبھی اتنے برے حالات نہیں دیکھے۔یوگندر چودھری جو دلی میں ایک فضائی کمپنی کے ملازمین کے لیے ٹیکسی چلاتے ہیں، ان کا کہناتھا کہ حکومت کو ان جیسے لوگوں کو مالی مدد فراہم کرنی چاہیے۔ایک موچی نے اپنا نام ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ احمد آباد کے ریلوے سٹیشن کے باہر برسوں سے مسافروں کے جوتے پالش کرنے کا کام کر رہے ہیں لیکن اب کوئی نظر نہیں آ رہا۔