سپریم کورٹ نے زیر سماعت قیدیوں کی رہائی کے تمام فیصلے معطل کردیے

ہائی کورٹس اور صوبائی حکومتوں کو قیدیوں کو رہا کرنے کے مزید احکامات دینے سے بھی روک دیا کورونا وائرس کی وجہ سے قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے سپریم کورٹ گائیڈ لائن طے کرے، اٹارنی جنرل کی استدعا کورونا وائرس سنجیدہ مسئلہ ہے ،کورونا کے باعث یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ سنگین جرائم میں ملوث قیدی رہا کردیے جائیں، چیف جسٹس چھوٹے جرائم میں ملوث ملزمان کورہائی ملنی چاہیئے، خوف نہ پھیلایا جائے، ہائی کورٹ نے دہشتگردی کے ملزمان کے علاوہ سب کورہا کردیا، ریمارکس وفاق، تمام ایڈووکیٹس جنرل،انسپکٹر جنرل اسلام آباد، صوبائی سیکرٹریز داخلہ، آئی جیز جیل خانہ جات، پراسیکیوٹر جنرل نیب، انسداد منشیات فورس ،ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان کو بھی نوٹس

پیر 30 مارچ 2020 17:58

سپریم کورٹ نے زیر سماعت قیدیوں کی رہائی کے تمام فیصلے معطل کردیے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 مارچ2020ء) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے فیصلے سمیت قیدیوں کی رہائی کیلئے دیگر عدالتوں سے جاری فیصلے معطل کرتے ہوئے ہائی کورٹس اور صوبائی حکومتوں کو قیدیوں کو رہا کرنے کے مزید احکامات دینے سے روک دیا۔ پیر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے کی۔

سماعت میں اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے ہائی کورٹس مختلف فیصلے دے رہی ہیں تاہم درخواست گزار کے حق دعویٰ پر کوئی اعتراض نہیں اٹھا رہا۔اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ کورونا وائرس کی وجہ سے قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے سپریم کورٹ گائیڈ لائن طے کرے۔

(جاری ہے)

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کورونا وائرس ایک سنجیدہ مسئلہ ہے لیکن کورونا کے باعث یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ سنگین جرائم میں ملوث قیدی رہا کردیے جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو کورونا وائرس کی وجہ سے کن حالات کا سامنا ہے سب معلوم ہے، دیکھنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کس اختیار کے تحت قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹس از خود نوٹس کا اختیار کیسے استعمال کر سکتی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اپنے حکم سے منشیات اور نیب کے مقدمات میں گرفتار کیے گئے ملزمان کو ضمانت دے دی جبکہ دنیا میں محتاط طریقہ کار کے ذریعے لوگوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چھوٹے جرائم میں ملوث ملزمان کورہائی ملنی چاہیئے، خوف نہ پھیلایا جائے، ہائی کورٹ نے دہشتگردی کے ملزمان کے علاوہ سب کورہا کردیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آفت میں لوگ اپنے اختیارات سے باہر ہوجائیں، یہ اختیارات کی جنگ ہے ان حالات میں بھی اپنے اختیارات سے باہر نہیں جانا چاہئے، صرف ان کو چھوڑدیں جن کی 2 سے 3 ماہ کی سزائیں باقی رہتی ہیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اس انداز سے ضمانتیں دینا ضمانت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے،۔جسٹس قاضی امین نے کہاکہ ہمیں خوفزدہ نہیں ہونا بلکہ پرسکون رہ کر فیصلہ کرنا ہے ،ہمارا دشمن مشترکہ اور ہمیں متحد ہو کر اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ دور ان سماعت عدالت نے ایڈوکیٹ شیخ ضمیر حسین کو عدالتی معاون مقرر کر دیا،بعد ازاں سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے 408 قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ معطل کردیا اور قیدیوں کی رہائی پر عملدرآمدکو بھی روک دیا اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے دیگر عدالتوں کی جانب سے جاری فیصلے بھی معطل کردیے جبکہ ہائی کورٹس اور صوبائی حکومتوں کو قیدیوں کو رہا کرنے کے مزید احکامات دینے سے بھی روک دیا۔

عدالت نے وفاق، تمام ایڈووکیٹس جنرل،انسپکٹر جنرل اسلام آباد، صوبائی سیکرٹریز داخلہ، آئی جیز جیل خانہ جات، پراسیکیوٹر جنرل نیب، انسداد منشیات فورس کے علاوہ ایڈووکیٹ جنرل گلگت بلتستان کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔