خلیجی ممالک میں موجود لاکھوں غیر ملکی ورکروں کی زندگیاں خطرے میں

مناسب حفاظتی اور غیرصحت بخش خوراک اور رہائش کی وجہ سے کورونا وائرس کا آسان ہدف بن سکتے ہیں. انسانی حقوق کی تنظیموں کا اظہار تشویش

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 31 مارچ 2020 14:19

خلیجی ممالک میں موجود لاکھوں غیر ملکی ورکروں کی زندگیاں خطرے میں
دوحہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔31 مارچ۔2020ء) خلیجی ممالک میں موجود لاکھوں غیر ملکی ورکرز کو ان ممالک میں لاک ڈاﺅن، آجروں کی جانب سے تنخواہیں روکنے یا نوکری سے نکالے جانے اور کورونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں سخت اقدامات کے نتیجے میں قید اور ملک بدری کے باعث غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے. برطانوی نشریاتی ادارے ادارے کی رپورٹ کے مطابق قطر میں قرنطینہ میں موجود ایک پاکستان انجینئر کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ اشیائے خورو نوش کا ہے، حکومت کچھ روز کے وقفے سے کھانا فراہم کرتی ہے لیکن وہ بہت کم ہوتا ہے.

(جاری ہے)

خیال رہے کہ صنعتی ضلع میں کورونا وائرس کا ایک ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد سے ہزاروں ورکرز کو قطری حکومت نے دوحہ کے انڈسٹریل ایریا میں سختی سے محدود کردیا گیا ہے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنطیموں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی نے خبردار کیا تھا کہ تنگ رہائشی جگہوں اور ناکافی صفائی کی وجہ سے خلیج بھر میں غیر ملکی ورکرز خطرے میں ہیں جو شاید صحت کی سہولیات تک رسائی نہ حاصل کرسکیں.

اس کے علاوہ انہیں تنخواہوں کی عدام ادائیگی، زبردستی نوکری سے فارغ اور ملک بدری جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے ان پر انحصار کرنے والے خاندانوں کے لیے صورتحال بدتر ہوسکتی ہے. ہیومن رائٹس واچ خلیج کی محقق حبا ضیا الدین کا کہنا ہے کہ خلیجی ممالک میں غیر ملکی ورکرز کو مزدوروں کے حوالے سے موجود نظام کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے جو آجروں کو غیر ملکی ورکرز کے حوالے سے بے پناہ اختیار دیتا ہے جس کے نتیجے میں ان کا استحصال اور بدسلوکی ہوتی ہے.

خیال رہے کہ تیل کی دولت سے مالامال خلیجی ممالک میں زیادہ تر غیر ملکی ورکرز کا تعلق بنگلہ دیش، بھارت، نیپال اور پاکستان سے ہے جو دنیا بھر میں غیر ملکی ورکرز کا 10 فیصد ہے اس سلسلے میں متعدد ورکرز جنہوں نے نشریاتی ادارے سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ انہیں صحت اور نوکری کے حوالے سے خدشات ہیں. سعودی عرب جہاں ایک کروڑ غیر ملکی ورکرز ہیں وہاں موجود کچھ مزدوروں کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے باس کام پر بلا رہے ہیں جبکہ سعودی شہریوں کو تنخواہ کے ساتھ قرنطینہ کی چھٹیاں دے دی گئی ہیں ایک مزدور نے بتایا کہ انہیں کہا گیا کہ اگر ان کی طبیعت خراب ہو تو وہ تنخواہ کے بغیر چھٹی حاصل کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا.

ریاض میں موجود ایک غیر ملکی سفارتکار نے بتایا کہ نجی شعبے میں کام کرنے والے بہت سے ورکرز کئی شعبوں کی بندش سے مشکلات کا شکار ہیں کیوں کہ زیادہ تر مالکان ورکرز کو تنخواہوں کے بغیر گھر سے بیٹھ کر کام کرنے کا کہہ رہے ہیں.انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے نجی شعبے کو معاوضے کی ادائیگی کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے کیوں کہ مالکان ورکرز کی پرواہ کیے بغیر معاوضے کو اپنا نقصان پورا کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں تاہم بہت سے ورکرز نکالے جانے کے خوف سے اس بارے میں بات کرنے سے بھی گریزاں ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ان کہ اپنے ملکوں میں صحت کی صورتحال زیادہ خراب ہے.