کرونا وائرس مودی سرکار کی نااہلی سے بھارت میں بڑے انسانی المیے کا خطرہ

بڑے شہروں سے لاکھوں مزدور اپنے آبائی علاقوں کے لیے پیدل سفر کررہے ہیں‘ہجرت کرنے والوں میں کتنے وائرس سے متاثر ہیں اندازہ نہیں لگایا جاسکتا.ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 1 اپریل 2020 13:11

کرونا وائرس مودی سرکار کی نااہلی سے بھارت میں بڑے انسانی المیے کا خطرہ
نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ یکم اپریل۔2020ء) بھارت میں لاک ڈاﺅن کے بعد لاکھوں لوگوں جانب سے اپنے آبائی علاقوں کی طرف سفر کرنے سے وبا کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے. گجرات میں مزدوری کرنے والے راجستھان کے گوتم لال مینا بڑھتی گرمی میں ربڑکے جوتے پہنے پکی سڑک پر چل کر اپنے گاﺅں کی جانب رواں دوں ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ پانی اور بسکٹ پر گزر بسر کرتے ہیں‘گوتم مینا گجرات میں ایک دن میں 400 روپے تک کما لیتے تھے اور اس کا بڑا حصہ وہ گھر بھیج دیتے مگر کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر 24 مارچ سے جب بھارتی حکومت نے 21 دن کے لیے لاک ڈاﺅن کا اعلان کیا تو اس کے بعد سے بہت سے لوگوں کے لیے کام کاج اور محنت مزدوری کے مواقع ختم ہو کر رہ گئے ہیں.

(جاری ہے)

بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک ہزار سے زائد بنتی ہے جبکہ 27 افراد اس وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں تمام ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے گوتم مینا کو اپنے گھر کی طرف یہ سفر پیدل ہی طے کرنا پڑا گوتم مینا نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ وہ دن رات پیدل چلتا رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ میرے پاس کیا آپشن تھا؟ میرے پاس بہت کم پیسے اور کھانے کو تقریباً کچھ بھی نہیں تھا.بھارت میں بڑے شہروں کو ہجرت کرنے والے کئی لاکھ مزدور بند شہروں کو چھوڑ کر اپنے اپنے آبائی علاقوں کی طرف واپس نکل گئے یہ مزدور بڑے شہروں کی معشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں گھروں کی تعمیر کرنا، کھانا بنانا، ریستوران میں کام کرنا، تیار کھانے ادھر ادھرپہنچانا، بال کاٹنا اور سیلون کی خدمات سر انجام دینا، آٹو موبائیل کی صنعت میں کام سے لے کر ٹوائلٹ کی صفائی اور دوسرے کاموں کے علاوہ اخبارات کی ترسیلات کو یقینی بناتے ہیں.اپنے آبائی علاقوں کی غربت سے بھاگ کر آئے ہوئے اندازے کے مطابق ان دس کروڑ مزدوروں کی بڑی تعداد تنگ علاقوں میں گندے گھروں میں رہتی ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے کے خواب دیکھتی ہے.گذشتہ ہفتے کے لاک ڈاﺅن نے انھیں راتوں رات پناہ گزین بنا کر رکھ دیاان کے کام کی جگہیں بند ہوگئیں اور زیادہ تر ملازمین اورٹھیکیدار جو انھیں ادائیگی کرتے تھے، اب وہ خود جا چکے ہیں.مردوں، خواتین اور بچوں نے گذشتہ ہفتے اپنے سفر کا آغاز کیا وہ اپنے ضروری سامان کو عام تھیلوں میں سمیٹ کر لے آئے ان میں خوراک، پانی اور کپڑے بھی شامل ہیں نوجوان مردوں نے ان تھیلوں کو اٹھا رکھا تھا جب بچے چلتے چلتے تھک جاتے تو ان کے والدین انھیں کاندھوں پر اٹھا لیتے.

وہ دن کو دھکتی دھوپ اور رات کو چمکتے ستاروں کی چاندنی میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پیسے ختم ہو رہے تھے اور انھیں یہ ڈر تھا کہ وہ کہیں فاقوں پرمجبور نہ ہو جائیں. بھارت کے معروف جریدے” انڈین ا یکسپریس“ نے یہ سرخی لگائی کہ انڈیا پیدل گھر کو جا رہا ہے‘بتایا جارہا ہے کہ لاکھوں لوگ ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے بھارتی کی ہائی ویزپر پیدل سفر کرکے اپنے آبائی علاقوں تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں.اس وبا کی روک تھام کے لیے کیے جانے والا لاک ڈاﺅن ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دے رہا ہے ہجرت کرنے والے ان افراد میں ایک 90 سال کی بوڑھی عورت بھی شامل ہے جس کا خاندان دلی کے نواحی علاقے میں ٹریفک سگنلز پرکھلونے فروخت کیا کرتا تھا.کاجودی 100 کلو میٹر کے فاصلے سے اپنے خاندان کے ساتھ راجستھان میں اپنے آبائی علاقے کی طرف پیدل سفر طے کر رہی تھیں کاجوری راستے میں بھوک مٹانے کے لیے بسکٹ اور سگریٹ نوشی کے طو پر استعمال ہونے والی بیڑی کھا کر گزارا کر رہی تھیں.

اس طرح بے سروسامانی کی حالت میں شہر سے نکل کر گاﺅں کی طرف آنے نے ان کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا خاتون کا کہنا تھا کہ اگر ٹرانسپورٹ دستیاب ہوتی تو وہ ٹکٹ لے کر گھر سے نکلتے.پیدل چلنے والوں میں ایک پانچ سال کا بچہ بھی شامل ہے، جو اپنے والد کے ساتھ دلی سے اپنے آبائی گھر مدھیا پردیش پہنچنے کے لیے سات سو کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کرنے کے لیے چل نکلا ہے اس بچے کا باپ ایک دیہاڑی دارمزدور ہے.بچے کے باپ نے بتایا کہ جب سورج غروب ہوتا ہے تو ہم پیدل سفر روک کر سو جاتے ہیں ان میں سے ہی ایک خاتون اپنے شوہر اوراڑھائی سال کی بچی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ان کا تھیلا کھانے کی اشیا پانی اور کپڑوں سے بھرا ہوا ہے.اس نے بتایا کہ انہیں ٹھہرنے کو جگہ تو مل جاتی ہے لیکن کھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں‘ 26 برس کے مسافر راجنیش آٹوموبائیل کی صنعت سے وابستہ ہے اور اتر پردیش میں اپنے آبائی گھر کے لیے وہ 250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ انہیں یہ سفر طے کرتے ہوئے چار دن لگ جائیں گے‘اس کا کہنا تھا کہ اس سے قبل کہ کورونا وائرس ہم پر حملہ آور ہو ہم تو چلتے چلتے ہی مر جائیں گے.وہ شخص مبالغہ آرائی نہیں کر رہا گذشتہ ہفتے تین سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے دلی سے مدھیا پردیش پہنچنے والے 39 برس کے ایک شخص کے سینے میں درد ہوا اور وہ پھر اس تھکاوٹ سے ہی مر گیا اسی طرح 62 سال کا ایک شخص گجرات میں ہسپتال سے پیدل واپس گھر کے باہر پہنچا تو وہیں مر گیا.چار مسافر جو گجرات سے را جستھان جا رہے تھے، راستے میں ایک ٹرک ان پر چڑھ گیا جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جیسے جیسے یہ بحران مزید سنگین ہو رہا ہے، صوبائی حکومتیں ٹرانسپورٹ، رہائش اور خوراک کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں‘لیکن ان لوگوں کو ان کے گاﺅں پہنچانا ایک ڈراﺅنا خواب بن چکا ہے جیسے ہی دلی کے بس ٹرمینل پر بسیں آئیں تو ہزاروں مسافروں کو ان پر سوار کر دیا گیا.دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے لوگوں سے کہا کہ وہ دارالحکومت سے باہرنہ جائیں انہوں نے لوگوں کو کہا کہ وہ جہاں ہیں، ادھر ہی ٹھہرے رہیں، کیونکہ زیادہ بڑے اجتماعات سے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے.اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت ان لوگوں کا کرایہ ادا کرے گی اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے 568 فوڈ سینٹرز قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے انہوں نے کہاکہ وزیر اعظم مودی کے لاک ڈاﺅن کی وجہ سے آپ کو جو مشکلات درپیش ہیں ان پر وہ معذرت چاہتے ہیں تاہم یہ سخت اقدامات اس وبا کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے ضروری تھے.جو بھی وجہ ہو وزیر اعظم مودی اور صوبے شہروں سے اس بڑے پیمانے پر انخلا کو سمجھنے سے قاصر رہے وزیر اعظم نے بیرون ملک پھنسے شہریوں کو خصوصی پروازوں سے واپس لانے کے لیے خاصی تیزی دکھائی لیکن انہوں نے بھارت کے اندر شہریوں کو مشکلات میں ہی چھوڑ دیا.بحران کے دوران گھروں کو واپس جانا ایک فطری عمل ہے جس طرح بیرون ملک پھنسے طلبا، سیاح اور زائرین واپس آنا چاہتے ہیں بالکل اسی طرح ملک کے اندر بڑے شہروں میں کام کرنے والے لوگ گاﺅں میں اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں.ماضی میں بھی شہروں سے اس طرح بڑے پیمانے پر انخلا کی مثالیں ملتی ہیں 2005 میں سیلاب کے بعد بہت سے مزدور شہر چھوڑ کر چلے گئے تھے 1918 میں ہسپانوی فلو کے پیش نظر ممبئی جو اس وقت بمبئی کہلاتا تھا، اس کی آدھی آبادی یہاں سے ہجرت کر گئی تھی.

1994 میں بھی مغربی بھارت کے صنعتی شہر سورت میں جب وبا پھوٹی تو بڑے پیمانے پر لوگوں نے ہجرت کی تھی 1896 میں ایسی ہی ایک وبا کے پھوٹنے سے بمبئی کا آدھا شہر خالی ہو کر صحرا کا منظر پیش کر رہا تھا.ماہرین کہہ رہے ہیں لاکھوں لوگ پیدل یا بھری بسوں میں اپنے گھروں کو پہنچ جائیں گے وہاں وہ مشترکہ خاندان والے گھروں میں منتقل ہو جائیں گے، جہاں اکثر ان کے بوڑھے والدین بھی رہ رہے ہوتے ہیں ان میں سے کتنے لوگ اپنے ساتھ وائرس لے کر سفر کررہے ہیں کوئی نہیں جانتا.بھارتی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق9 ریاستوں کے 56 ضلعوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی ہے جوں جوں یہ ہزاروں لوگ اپنے گھروں کو پہنچیں گے یہ مقامات بھی اس وبا سے متاثر ہو سکتے ہیں.دلی کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے محقق پارتھا مکھو پاداھیا کا کہنا ہے کہ ان 56 اضلاع میں 35 ہزار ویلج کونسل کو حساس قرار دے کر وہاں وائرس کے ٹیسٹ کیے جائیں اور جن لوگوں میں اس وائرس کی تشخیص ہو انھیں مقامی ہسپتالوں اور سہولیات میں علیحدہ رکھا جائے.

بھارت کو لاک ڈاون سے جو نقصان پہنچے گا اس کا اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے، تاہم اس دوران بے گھر افراد ان اقدامات سے بری طرح متاثر نہ ہوں.
کرونا وائرس مودی سرکار کی نااہلی سے بھارت میں بڑے انسانی المیے کا خطرہ