ہدف سے کم گندم کی خریداری،مارکیٹ کی صورتحال کوسمجھنے اورگرفت میں ناکامی، فلورملز کا نامناسب اورغیرقانونی طرزعمل، گندم بحران کے اہم عوامل

تحقیقاتی کمیٹی نے پاسکو، وزارت قومی غذائی تحفظ اورمحکمہ ہائے خوراک کو بحران کا ذمہ دارقرار دیدیا

اتوار 5 اپریل 2020 00:15

اسلام آباد ۔ 4 اپریل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 اپریل2020ء) گندم اورآٹا کے بحران کی تحقیقات کیلئے قائم تحقیقاتی کمیٹی نے ہدف سے کم گندم کی خریداری،مارکیٹ کی صورتحال کوسمجھنے اورگرفت میں ناکامی اورفلورملز کے نامناسب اورغیرقانونی طرزعمل کو ملک بھرمیںپیداہونے والے حالیہ بحران کے اہم عوامل قراردیاہے۔کمیٹی نے پاکستان ایگری کلچرل سٹوریج اینڈسروسزکارپوریشن (پاسکو)، وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق اورمحکمہ ہائے خوراک کواس ناکامی کا ذمہ دارٹہرایا ہے۔

رپورٹ کے مندرجات کے مطابق پاسکو سال میںہدف کے مطابق 0.42 ملین ٹن گندم کی خریداری میں ناکام رہاہے حالانکہ گزشتہ پانچ برسوں میں گزشتہ سیزن سے بچ جانیوالے گندم کے ذخائر کم ترین سطح پرریکارڈ کئے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق گندم کی کم پیداوارکے تناظرمیں مارکیٹ کی صورتحال کو سمجھنے اورگرفت میں لینے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اوروزارت نے وفاقی حکومت کوجو سفارشات پیش کیں وہ معمول کے مطابق اورگمراہ کن تھیں۔

رپورٹ کے مطابق وزارت کی جانب سے 7 اگست 2019ء کو میدہ اورسوجی کی برآمد کافیصلہ ناقابل توجیہہ ہے، ایف بی آر کے نظام کے تحت گندم سے بنی تمام اشیاء کی ایک کوڈ سے برآمد کی گئی،حتیٰ کہ کسٹم کے افسران کیلئے بھی یہ کہنامشکل تھا کہ میدہ اورآٹا کی آڑمیں گندم برآمدکی جارہی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ وزارت گندم کی بروقت درآمد کیلئے وفاقی حکومت کو ایڈوائس دینے میں ناکام رہی ، پالیسی مداخلت کے ذریعے قیاس آرائیوں ، ذخیرہ اندوزی اورناجائز منافع خوری کی حوصلہ شکنی ممکن تھی، انہی وجوہات کی وجہ سے گندم کی قلت اورقیمتوںمیں اضافہ کابحران شروع ہوا۔

رپورٹ میں سیکرٹری وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق کو ان ناکامیوں کاذمہ دارٹہراتے ہوئے کہاگیاہے کہ پاسکو کی جانب سے ہدف سے کم گندم کی خریداری کا ذمہ دارکارپوریشن کے سابق منیجنگ ڈائریکٹرہے۔رپورٹ کے مطابق پنجاب کے محکمہ خوراک نے گندم کی خریداری میں 20 سے 22 یوم کی تاخیرکی جس کے نتیجہ میں ہدف سے 0.67 ملین ٹن کم گندم کی خریداری کی گئی،اس حقیقت کے باوجود کہ گزشتہ پانچ برسوں میں گندم کے گزشتہ سیزن سے بچ جانیوالے ذخائر کا حجم کم ترین ریکارڈ کیا گیاتھا۔

پنجاب کامحکمہ خوراک فلورملز پرقابوپانے میں بھی ناکام ثابت ہواہے، فلورملزنے ناجائزمنافع خوری کی فلورملز کے مالکان کوپتہ چل گیاتھا کہ حکومت گندم کی طلب اوررسد کو ہینڈل کرنے کیلئے پوری طرح سے تیارنہیں ہے۔رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ اے سی ای پنجاب نے ایک سادہ سروے کے ذریعہ بعض ایسے ملزمالکان کی نشاندہی کی ہے جوغیرقانونی، غیراخلاقی اورناجائز طرزعمل میں ملوث تھے، اے سی ای نے ایسے ملز کی پوسٹ آڈٹ کی سفارش کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب کے محکمہ خوراک نے خاموشی کے ساتھ پولٹری فیڈز ملوں کو پرائیوٹ مارکیٹوں سے بڑی مقدارمیں گندم کی خریداری کی اجازت دی تھی۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پنجاب کی حکومت نے محکمہ خوراک میں تبادلوں میں متلون مزاجی کامظاہرہ کیا،سال میں چارفوڈ سیکرٹریز اورتین بار ڈی ایف سیز کے تبادلے ہوئے، پنجاب کا محکمہ خوراک گندم کی طلب اوررسد کوباضابطہ بنانے کے طریقہ کاراورحکومتی ونجی سطح پرگندم کے سٹاک کا ریکارڈ رکھنے میں ناکام ثابت ہواہے جس کے اثرات ہرطرف ظاہرہونا شروع ہوئے، محکمہ خوراک پنجاب نے اس صورتحال کودرست کرنے کیلئے کوئی اصلاحات نہیں کیں، رپورٹ کے مندرجات کے مطابق سابق سیکرٹری محکمہ خوراک پنجاب اورسابق ڈائریکٹرفوڈزپنجاب ہدف سے کم گندم کی خریداری کے ذمہ دارہیں جبکہ صوبائی وزیرخوراک پنجاب کے محکمہ خوراک میںپائی جانیوالی سنگین خرابیوں کودورکرنے کیلئے اصلاحات کا ایجنڈامرتب نہ کرنے کے ذمہ دارہیں۔

رپورٹ کے مطابق سندھ کی حکومت گندم کے سٹاک کی خریداری نہ کرنے کافیصلہ کیاتھا جبکہ وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق نے سال کیلئے ایک ملین ٹن گندم کی خریداری کاہدف مقررکیاتھا، سندھ کی حکومت نے دعویٰ کیاتھا کہ اس کے پاس گزشتہ سیزن سے بچ جانیوالی0.98 ملین ٹن گندم کے ذخائرہیں۔اس سٹاک کی صداقت پراس وقت سنجیدہ سوالات پیدا ہوئے جب قومی احتساب بیورونے سندھ میں گندم کے ذخائرمیں چوری پکڑی۔

رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ سندھ کامحکمہ خوراک پاسکوکی طرف سے مختص کردہ کوٹہ کے مطابق بروقت گندم اٹھانے میں ناکام رہا،جس کے نتیجہ میں گندم کی قلت ہوئی اورقیمتوں میں اضافہ بھی ہوا،صوبائی محکمہ خوراک گندم کی طلب اور رسد کی چین کو ریگولیٹ کرنے کیلئے نظام وضع کرنے اورحکومتی اورنجی سٹاک کاریکارڈ رکھنے میں ناکام ثابت ہواہے۔رپورٹ میں کہاگیاہے کہ سندھ میں گندم کی خریداری میں ناکامی کی ذمہ داری کسی ایک فرد پرعائدنہیں کی جاسکتی کیونکہ کابینہ نے گندم کی خریداری کی سمری پرکوئی فیصلہ نہیں کیاتھا۔

رپورٹ میں کہاگیاہے کہ خیبرپختونخواکامحکمہ خوراک گزشتہ دوبرسوں سے ہدف کے مطابق گندم کی خریداری میں ناکام رہاہے جس کی ذمہ داری سابق صوبائی سیکرٹری محکمہ خوراک،سابق ڈائریکٹرفوڈ اوروزیرخوراک پر عائد ہوتی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق کو صوبوں کے ساتھ مل کرسائنسی بنیادوں پرفصل کے درست تجزیہ کیلئے طریقہ کاروضع کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

رپورٹ میں وزارت سے کہاگیاہے کہ گندم کی خریداری کے اہداف مقررکرتے وقت گزشتہ سیزن سے بچ جانیوالے سٹاک کومدنظررکھنا چاہئیے ۔رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ وزارت قومی غذائی تحفظ اورصوبوں کو بالخصوص پاسکو کے خریداری اہداف کے حصول کیلئے پالیسی سازی، منصوبہ بندی ، رابطہ کاری اورفیصلوں کے موثراطلاق کویقینی بنانے کے طریقہ ہائے کارکومضبوط بنانا چاہئیے ۔

رپورٹ میں کہاگیاہے کہ وزارت قومی غذائی تحفظ کو رواں سال گندم کی خریداری کیلئے پالیسی اوراس کے نٖفاذ کے ضمن میں موثرمیکنزم بناناچاہئیے ، رپورٹ گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ کی بھی سفارش کی گئی ہے تاکہ مارکیٹ ریٹ کے تناسب سے مسابقت کو یقینی بنایا جاسکے۔رپورٹ میں نجی شعبہ کی جانب سے گندم اورگندم سے بنی اشیاء کی برآمد کی نگرانی اورصورتحال کی درست تفہیم کیلئے طریقہ کاروضع کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے، صوبوں کو سفارش کی گئی ہے کہ وہ وزارت قومی غذائی تحفظ وتحقیق کی جانب سے گندم کی خریداری کیلئے اہداف بہرصورت پوراکرے، صوبے نجی شعبہ میں گندم کے سٹاک کانگرانی کاطریقہ کاربھی وضع کرے تاکہ قیمتوں پراثراندازی اورمصنوعی قلت کا موثرطریقے سے تدارک یقینی بنایا جاسکے۔

رپورٹ میں گندم کے سرکاری ذخائر کی حفاظت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کواستعمال کرتے ہوئے نگرانی کا طریقہ کار اورچوری و گندم کونقصان سے بچانے کیلئے موثرطریقہ کاروضع کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ملزکوفراہم کی جانے والی گندم کی ہربوری پرکیوآرکوڈ دینے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں صوبائی حکومتوں سے فلورملز کی پوسٹ آڈٹ کرانے کی بھی سفارش کی گئی ہے تاکہ غیرقانونی، غیراخلاقی حربوں کے الزامات کوجانچا جاسکے۔