امریکہ میں کورونا وائرس مزید 1 ہزار سے زائد جانیں نگل گیا

1 ہزار 48 اموات کے بعد امریکہ میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 8 ہزار 452 ہو گئی

Kamran Haider Ashar کامران حیدر اشعر اتوار 5 اپریل 2020 07:43

امریکہ میں کورونا وائرس مزید 1 ہزار سے زائد جانیں نگل گیا
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 اپریل 2020ء) امریکہ میں کورونا وائرس مزید 1 ہزار سے زائد جانیں نگل گیا 1 ہزار 48 اموات کے بعد امریکہ میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 8 ہزار 452 ہو گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق امریکہ میں گزشتہ کئی روز سے ہلاکتوں کی شدت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ہزار سے زائد افراد روزانہ کی بنیاد پر کورونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد مر رہے ہیں۔

تازہ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں ایک ہزار سے زائد مزید ہلاکتوں کی تصدیق کے بعد ملک میں وائرس سے ہلاک افراد کی تعداد 8 ہزار 452 ہو گئی ہے۔ جبکہ 34 ہزار سے زائد نئے کیسز سامنے آنے کے بعد متاثرہ افراد کی تعداد 3 لاکھ 11 ہزار سے بھی بڑھ چکی ہے۔ امریکہ صدر نے اپنے ایک بیان میں آئندہ چند روز میں افسوسناک حد تک ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ امریکہ میں کورونا وائرس کی وجہ سے ریکارڈ اموات کے باجود ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے گھروں میں رہنے سے متعلق ملک گیر آرڈر نافذ کرنے میں عدم دلچسپی پر وائٹ ہاؤس کورونا وائرس ٹاسک فورس کے متعدد اراکین نے سوال اٹھا دیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق میری لینڈ کی گورنر لیری ہوگن نے خبردار کیا کہ امریکی دارالحکومت اور اس کے مضافاتی علاقے چند ہفتوں میں کورونا وائرس کا اگلا مرکز بن سکتے ہیں۔

سمندری طوفان سے وبائی بیماری کا موازنہ کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ یہ وائرس تمام 50 ریاستوں کو متاثر کرچکا ہے اور اس کی شدت میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے جبکہ یہ انتہائی بدتر ہے۔نیو یارک جہاں وائرس سے ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، وہاں کے گورنر اینڈریو کوومو نے کہا کہ ریاست کے پاس صرف 6 دن ہیں جس کے بعد وینٹی لیٹرز دستیاب نہیں ہوں گے۔

گورنر نے نیویارک میں ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ یہ بہت آسان ہے کہ ایک شخص آئی سی یو میں آتا ہے تو اسے وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے یا وہ مرجائے۔ ادھر وائٹ ہاؤس میں متعدی بیماریوں کے معالج ڈاکٹر انتھونی فوسی نے سوال اٹھایا کہ امریکی وفاقی حکومت گھر پر رہنے کے احکامات کیوں عائد نہیں کررہی ہے۔ دوسری جانب وائٹ ہاؤس کورونا وائرس رسپانس کوآرڈینیٹر ڈاکٹر ڈیبوراہ برکس نے امریکیوں پر زور دیا کہ وہ سماجی فاصلے پر سختی سے عمل کریں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ 10 افراد پر مشتمل کوئی اجتماع نہیں تو یہ واضح ہے کہ کوئی ڈنر پارٹیز یا کاک ٹیل پارٹیز نہیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ریسٹورانٹ اور بارز کو پہلے ہی اپنی حدود میں سروسز فراہم کرنے سے روک دیا ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ میں کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران شاپنگ سٹورز اور دوسرے کاروباری ادارے بند کرنے کے نتیجے میں مارچ کے آخری 2 ہفتوں کے دوران 10 ملین (1 کروڑ) افراد روزگار سے محروم ہوئے جن میں سے 6.65 ملین نے صرف آخری ہفتے کے دوران خود کو بے روزگار رجسٹر کرایا، ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ان اعداد و شمار کے تناظر میں وباء سے ملکی معیشت کو ہونے والے اصل نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

محکمہ محنت کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے دنیا کے دوسرے حصوں کی طرح امریکی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، اسے پھیلنے سے روکنے کے لیے جاری لاک ڈاؤن کے دوران ہر طرح کے کاروباری اداروں کی بندش سے دیگر نقصانات کی ساتھ ساتھ شہری بھی بڑی تعداد میں بے روزگار ہو رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ کے دوران لوگوں کی بڑی تعداد روزگار سے محروم ہوئی، مہینے کے آخری 15 دنوں کے دوران 1 کروڑ لوگ روزگار سے محروم ہوئے جن میں سے 6.65 ملین (66 لاکھ 50 ہزار) نے صرف مارچ کے آخری ہفتے میں خود کو بے روزگار رجسٹر کرایا جو تیسرے ہفتے کے مقابلے میں دوگنا ہیں، تیسرے ہفتے کے دوران 3.3 ملین (33 لاکھ) افراد نے خود کو بے روزگار رجسٹر کرایا تھا۔

یہ اعداد و شمار ماہرین اقتصادیات کے زیادہ سے زیادہ پیشگی اندازوں سے بھی بڑھ کر ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی معیشت کو کورونا وائرس کے نتیجے میں کس قدر نقصان کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاست فلوریڈا ہے جہاں سیاحت کے شعبے پر پابندی کے باعث مارچ کے آخری ہفتے میں بے روزگار ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔ کچھ ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ کورونا وباء کے باعث ملک میں بیروزگاری کی شرح دوسری جنگ عظیم کے بعد اب تک کی بلند ترین سطح پر جا سکتی ہے جس سے کساد بازاری کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔