طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کردیا

امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والا معاہدہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا نظرنہیں آرہا‘گرمی میں شدت کے ساتھ تشددمیں بھی اضافہ ہونے کا امکان ہے. ایڈیٹر اردوپوائنٹ میاں محمد ندیم کا تجزیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 7 اپریل 2020 13:34

طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کردیا
کابل(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔07 اپریل۔2020ء) افغان طالبان نے معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد نہ ہونے پر افغان حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد آنے والے دنوں میں افغانستان میں شدید خونریزی کا خدشہ ہے. طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغان حکومت قیدیوں کی رہائی میں حیلے بہانے کر رہی ہے اور قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی ذمہ دار صدر اشرف غنی کی انتظامیہ ہے سہیل شاہین نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی سے پہلے طالبان نے قیدیوں کی شناخت اور تصدیق کے لیے ایک تیکنیکی ٹیم کابل بھیجی تھی لیکن وہ ٹیم اب ان بے نتیجہ مذاکرات میں شریک نہیں ہو گی جو متعلقہ فریقین کے درمیان کل سے شروع ہونے جا رہے ہیں.

خیال رہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے امن معاہدے میں طے پایا تھا کہ طالبان کے قیدیوں کی رہائی 10 مارچ تک شروع ہو جائے گی لیکن افغانستان میں جاری سیاسی چپقلش کے باعث یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہو رہا ہے. دونوں فریقین کے درمیان اختلافات دور کرنے کے لیے طالبان کی ایک ٹیم کابل میں افغان حکام سے گزشتہ کئی روز سے مذاکرات کر رہی تھی امن معاہدے کے مطابق افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرنا ہے اس کے بدلے طالبان بھی اپنی قید میں موجود ایک ہزار افغان قیدی رہا کریں گے جس میں بڑی تعداد افغان اہلکاروں کی بتائی جاتی ہے.

امن معاہدے میں طے پایا تھا کہ امریکہ آئندہ سال جولائی تک افغانستان میں موجود اپنے فوجیوں کا انخلا کرے گا اور ان کی تعداد میں کمی کی جائے گی البتہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان گزشتہ ہفتے سے قیدیوں کے تبادلے پر مذاکرات جاری ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا ہے. افغان حکومت کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کے ایک رکن متین بیگ نے کہا ہے کہ قیدیوں کی رہائی میں تاخیر اس لیے ہو رہی ہے کہ طالبان اپنے 15 اعلیٰ کمانڈرز کی رہائی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم اپنے لوگوں کے قاتلوں کو رہا نہیں کر سکتے ہم نہیں چاہتے کہ وہ رہا ہو کر دوبارہ میدان جنگ میں جائیں اور پورے صوبے پر قبضہ کر لیں.

متین بیگ نے کہا کہ حکومت 400 سے زائد طالبان رہنماو?ں کو خیر سگالی کے تحت رہا کرنے کے لیے تیار ہے جو زیادہ خطرناک نہیں ہیں لیکن طالبان اس پیشکش کو ٹھکرا چکے ہیں‘ سہیل شاہین کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب دو روز قبل طالبان نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی فروری میں طے پانے امن معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں نا صرف طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر ہو رہی ہے بلکہ طالبان کے غیر عسکری اہداف کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے.

افغانستان میں ایک جانب تو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والا معاہدہ تعطل میں پڑا ہوا ہے اور دوسری جانب دو سیاسی حریفوں یعنی صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان رسہ کشی نے بین الافغان مذاکرات کو مشکل بنا دیا ہے. ایڈیٹر اردوپوائنٹ میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والا معاہدہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے گاکیونکہ یہاں اشرف غنی یا عبداللہ عبداللہ کی رضا مندی کوئی معنی نہیں رکھتی اور طالبان اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے امریکا اور اتحادیوں پر امن معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے.

انہوں نے دعوی کیا کہ عبداللہ عبداللہ اور افغانستان کے مقامی وارلارڈ اور قبائیلی سردار طالبان کے ساتھ مل کر قومی حکومت بنانے کے حق میں ہیں تاہم افغانستان میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اشرف غنی اور ان کی کچن کیبنٹ ہے جنہیں واشنگٹن اور دیگر طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کی معاملہ درپیش نہ آتا تو ممکنہ طور پر اپریل یا مئی میں لویہ جرگہ کے ذریعے افغانستان میں قومی حکومت قائم ہوچکی ہوتی.

انہوں نے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کابل کو معاہدے کی شرائط پورا کروانے پر مجبور کریں. ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جرگہ سیاسی مفاہمت کے لئے کام کر ریا ہے اس نے دونوں فریقوں یعنی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے کہا ہے کہ وہ آئندہ پانچ سے سات روز تک نہ تو کوئی تقرر کریں، نہ نئے احکامات جاری کریں اور بالکل خاموشی اختیار کریں اور اس دوران جرگہ مفاہمت کی کوئی صورت نکالنے کی کوشش کرے گا.

انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اب امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے سے کوئی مثبت نتائج حاصل کئے جا سکیں گے کیونکہ نہ تو افغان حکومت متحدہ طور پر خود کو پیش کرنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی طالبان کے تمام دھڑ ے معاہدے پر عمل درآمد میں تاخیر پر معاہدے کی پاسداری پر متفق ہیں. ادھر امریکا افغان افواج کی تنظیم نو وغیرہ اور انہیں زیادہ فعال بنانے کے لئے دی جانے والی امداد میں ایک ارب ڈالر کی کٹوتی کا اعلان کرچکا ہے جس سے افغان افواج کے مورال پر بہت برا اثر پڑے گا اور طالبان زیادہ مضبوط پوزیشن میں آ جائیں گے.

انہوں نے کہا کہ اگر ہم 19سالہ جنگ کے پیٹرن کا مطالعہ کریں تو طالبان شدید موسموں میں حملوں میں اضافہ کرتے ہیں اور اگر واشنگٹن نے اشرف غنی پر دباﺅ ڈال کر معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد نہ کروایا تو آنے والے موسم گرما میں افغانستان میں شدید خونریزی کا امکان ہے .