آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینیجمنٹ ایسوسی ایشن کے زیر انتظام مشاورتی اجلاس

منگل 7 اپریل 2020 23:56

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 اپریل2020ء) آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینیجمنٹ ایسوسی ایشن کے زیر انتظام ایک مشاورتی اجلاس منعقد کیا گیا۔جس میں مرکزی صدر کاشف ادیب جاودانی، ڈویژنل صدر راولپنڈی ابرار احمد خان، مرکزی سینئر نائب صدرمحمد فرقان چوہدری، جنرل سیکرٹری امجد علی خان، جنرل سیکریٹری پنجاب ملک افتخار حسین اور ان کے علاوہ معروف ماہر تعلیم عرفان طالب نیایبٹ آباد سے خصوصی شرکت کی۔

اس وڈیو کانفرنس میں کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے پرائیویٹ اداروں کے مسائل کا جائزہ لیا گیا۔ اور اس سلسلے میں مشاورت کے ساتھ یہ فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم عمران خان، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود اور وفاقی وزیر محصولات حماد اظہر کو ایک خط لکھ کر پرائیویٹ سکولوں کے مسائل کی آگاہی دی جائے اور ان کا حل تجویز کیا جائے۔

(جاری ہے)

پرائیویٹ سکولوں کے متعلق ارب پتی ہونے کا جو تاثر پایا جاتا ہے اس تناظر میں صحیح صورت حال حکومت کے ذمہ داران تک پہنچائی جائے۔

پاکستان میں 90 فیصد ادارے چار ہزار سے کم فیس لینے والے ہیں۔ وہ بلڈنگ کے کرائے اور تنخواہوں کی ادائیگی مشکل سے کرتے ہیں اس کے علاوہ بجلی اور پانی کے بل کمرشل ریٹ پر ادا کرتے ہیں جو اس سے پہلے گھریلو ریٹ پر ادا کئے جاتے تھے۔مارچ 2020 کے اوائل میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے 20 فیصد سے بھی کم فیسوں کی وصولی ہو سکی۔سکولوں میں کسی بھی فرد کے داخلے کی ممانعت کی وجہ سے والدین نے مارچ کی فیسیں ادا نہیں کیں بلکہ بہت سے بقایا جات بھی ادا نہیں کئے گئے۔

چند دن پہلے پنجاب کے کچھ اضلاع میں اکاؤنٹ آفس کھولنے کی اجازت دی گئی لیکن والدین میں سے کوئی بھی فیس جمع کروانے نہیں آیا۔ اس طرح اساتذہ اور جملہ سٹاف کی تنخواہیں ابھی تک ادا نہیں ہو سکیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران اساتذہ اور سٹاف کو تنخواہیں باقاعدگی سے ادا کی جائیں لیکن والدین کو اس سلسے میں کوئی ہدائیت جاری نہیں کی گئی کہ وہ باقاعدگی سے فیسیں ادا کریں اور نہ ہی سکولوں کے دفاتر کھولنے کے لئے کوئی ہدایات دی گئی ہیں۔

اگر کوئی سکول اپنا دفتر کھولتا ہے تو اس کو سیل کر دیا جاتا ہے اور پرنسپل کے خلاف مقدمہ قائم کر کے گرفتار کر لیا جاتا ہے جو کسی بھی ادارے کے سربراہ اور خاص کر پرنسپل کے لئے رسوائی کا باعث ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو خدشہ ہے کہ فیسوں کی عدم وصولی اور مناسب فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے 80 فیصد سکول بند ہو جائیں گے۔ ان حالات میں 5 لاکھ کے لگ بھگ اساتذہ اور دوسرا سٹاف بے روزگار ہو جائے گا جس کے نتیجے میں ان پر انحصار کرنے والے ان کے خاندان کے 50 لاکھ افراد نان نفقہ کے محتاج ہو جائیں گے۔

رمضان کا مقدس مہینہ سر پر آیا چاہتا ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ اور سٹاف کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اس کا ادراک کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ شرکاء نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ والدین کو فیسوں کی ادائیگی کے متعلق ہدایات دی جائیںاور پابند کیا جائے کہ وہ ہر ماہ کی فیس دس تاریخ سے پہلے لازمی ادا کریں تاکہ سٹاف کو بروقت تنخواہ کی ادائیگی ہو سکے۔

والدین سکولوں سے قسطیں کروا کر بھی ادائیگی کر سکتے ہیں۔والدین کو فیسوں میں ریلیف دینے کے لئے پوری یا آدھی فیس تحصیل یا ضلعی انتظامی دفاتر میں سکول کی رسید دکھا کر حاصل کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں تاکہ وہ اس مشکل دور میں اپنا گزارہ کر سکیں۔چھوٹے اداروں کے بجلی، گیس اور پانی کے بل معاف کئے جائیں اور یہ ممکن نہ ہو تو ان کو موخر کیا جائے۔

بجلی اور پانی کے کمرشل ریٹ کو ختم کر کے پرانا گھریلوٹیرف لاگو کیا جائے۔انکم ٹیکس، ای او بی آئی، سوشل سیکورٹی، تجدیداور دیگر درجن بھر محصولات سال 21-2020 کے لئے معاف کئے جائیں۔تعلیمی فاؤنڈیشنز کے ذریعے سکولوں کو آسان شرائط پر قرضے دئے جائیں تاکہ وہ ان مشکل حالات کا مقابلہ کر سکیں۔چھوٹے اداروں کو آن لائن تعلیم دینے کے لئے تربیت کا بندوبست کیا جائے اور آسان شرائط پر انٹرنیٹ کی سہولت دی جائے۔ان سفارشات پر فوری عملدرامد کے احکامات صادر کئے جائیں ورنہ سکولوں کے بند ہونے سے نہ صرف بے روزگاری میں اضافہ ہو گا بلکہ ایک کروڑ سے زائد بچوں کا تعلیمی مستقبل تاریک ہو جائے گا۔