Live Updates

10سالوں میں 2 ہزار چار سو ارب ڈالر کے قرضوں کی انکوائری ، 250 افراد کی نشاندہی

قرض انکوائری کمیشن نے 420غیرملکی قرضوں کے مکمل ریکارڈکی جانچ پڑتال بھی کی ہے. ذرائع

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 8 اپریل 2020 15:01

10سالوں میں 2 ہزار چار سو ارب ڈالر کے قرضوں کی انکوائری ، 250 افراد کی نشاندہی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 اپریل۔2020ء) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ماضی میں لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کیلئے بنائے گئے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں 21اداروں سے وابستہ 250 افراد کی نشاندہی کردی ہے حکومتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے مشیر برائے احتساب شہزاداکبر کو رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے. ذرائع کے مطابق قرضہ کمیشن نے 2008 ءسے 2018 ءتک 2400 ارب روپے قرضے کی رپورٹ تیار کرلی ہے جن میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ترقیاتی منصوبوں میں اختیارات کے غلط استعمال، کک بیکس اور قرضوں میں سنگین بے ضابطگیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے.

رپورٹ میں مختلف ترقیاتی منصوبوں سے رقم نجی اکاﺅنٹس میں منتقل ہونے کی تفصیلات بھی رپورٹ میں درج ہیں قرضہ انکوائری کمیشن نے 420غیرملکی قرضوں کے مکمل ریکارڈکی جانچ پڑتال بھی کی ہے. ذرائع کے مطابق اورنج لائن ٹرین، بی آر ٹی پشاور، کول پاورپلانٹس اور نیلم جہلم سمیت دیگر منصوبوں کے متعلق تفصیلات بھی رپورٹ کا حصہ ہیں یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے جون 2019 میں قرضہ کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد 2008 سے2018 تک لیے گئے قرضے اور ان کے استعمال کی تفصیلات جمع کرنا تھا۔

(جاری ہے)

مذکورہ کمیشن میں ایف آئی اے اور آئی ایس آئی کے اراکین بھی شامل تھے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قائم کیے گئے 12 رکنی کمیشن کی سربراہی ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر کو سونپی گئی تھی.

تحریک انصاف کی حکومت کے تحت کام کرنے والا یہ کمیشن اس وقت کی سیاسی قیادت اور کابینہ کے اراکین سے پوچھ سکتا ہے کہ ایسے کیا حالات تھے اتنے زیادہ قرضے لینے کی منظوری دی گئی تو کیا وزیراعظم عمران خان کے مشیر خزانہ اور 2010سے 2013تک پیپلزپارٹی دور کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے بھی تفتیش کی گئی ہے؟ . سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2007-08کے اختتام سے مالی سال2017-18 کے اختتام تک پاکستان کے کل قرض میں 49 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور وہ 46.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 95.2 ارب ڈالر ہو گیا جوکہ سو فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہے اس 49 ارب ڈالر میں سے پیپلزپارٹی کے دور میں یعنی 2008 سے 2013 کے درمیان 14.7 ارب ڈالر جبکہ مسلم لیگ نون کے دور میں 34.3 ارب ڈالر قرض لیا گیا.

تحریکِ انصاف کی حکومت کے ابتدائی 7 مہینوں میں پاکستان کا کل قرض 95.2 ارب سے بڑھ کر 105.8 ارب ڈالر ہو گیا ہے جو کہ 10.6 ارب ڈالر کے لگ بھگ اضافہ ہے ان قرضوں میں حکومت کے ملکی بینکوں سے لیے گئے قرضے، نجی کمپنیوں کے بیرونی قرضے، پبلک سیکٹر کمپنیوں کے ضمانت اور بغیر ضمانت والے قرضے بھی شامل ہیں. سعودی عرب اگر آج پاکستان کو اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر بہتر کرنے کے لیے تین یا چار ارب ڈالر دے، اور وہ قرضے کی مد میں نہ ہو، مگر پھر بھی وہ پاکستان کے واجبات میں گنا جائے گا مگر اگر ہم باقی باتیں چھوڑ کر صرف دو چیزوں، یعنی حکومت کا بیرونی قرضہ اور آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ گنیںتو کہانی تھوڑی سی مختلف ہے.

اگر ہم صرف حکومت کا بیرونی قرضہ اور آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ جمع کریں تو مالی سال 2007-2008 کے اختتام سے مالی سال 2017-18 کے اختتام تک یہ 41.8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 70.2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اگر 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کے دور کو دیکھا جائے تو اس دوران اس میں 6.3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ مسلم لیگ نواز کے دور میں یہ رقم 48.1 ارب ڈالر سے بڑھ کر 70.2 ارب ڈالر تک جا پہنچی جو کہ 22.1 ارب ڈالر کا اضافہ ہے.

اگست 2018 میں تحریکِ انصاف کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ابتدائی 7 ماہ میں پاکستان کے حکومتی قرضوں میں چار ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اس بحث میں پڑے بغیر کہ یہ اضافہ جائز تھا یا نہیں، یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عمران خان اب کنٹینر پر نہیں وزیراعظم ہاﺅس میں بیٹھے ہیں اور ان کے بیانات سٹاک مارکیٹ سے لے کر ملک کی شرحِ نمو تک ہلا سکتے ہیں.

اگر وزیراعظم کے بیان سے یہ تاثر آئے کہ گذشتہ دو حکومتوں نے 24 ہزار ارب روپے کے قرضے لیے ہیں تو یہ شاید درست نہیں ہو گا ایک اور بات اہم ہے اور وہ یہ کہ پیپلز پارٹی کے دور میں پرائیویٹ سیکٹر نے بیرونِ ملک سے 1.26 ارب ڈالر قرضے لیے مگر نواز شریف کے دور میں پرائیویٹ سیکٹر نے بیرونِ ملک سے 6.05 ارب ڈالر کے قرضے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے قرضے لینے کو عموماً ایک مثبت اشارہ سمجھا جاتا ہے کہ معیشت میں تیزی آ رہی ہے اور نواز دور میں اس کی ایک وجہ شاید سی پیک سے منسلک سرمایہ کاری ہو سکتی ہے.

تاریخی تناظر میں پاکستان کو ملنے والے قرضوں کی اوسط شرحِ سود تقریباً اتنی ہی رہی جتنی یہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے لیے تھی 2013 کے بعد سے رجحان دیکھیں تو پاکستان کو ملنے والے قرضوں پر شرحِ سود جنوبی ایشیا کے مقابلے میں زیادہ رہی. 2008-2018 کے دوران پاکستان نے کتنا سود ادا کیا ہے؟اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ حکومت جتنا ٹیکس اکھٹا کرتی ہے، اس کا ایک بڑا حصہ سود کی ادائیگیوں میں لگ جاتا ہے.

اگر کل ادائیگیاں گنی جائیں تو پاکستان نے جون 2009 سے مارچ 2019 تک قرضے کی اصل رقم (یعنی پرنسپل) میں سے 37 ارب 211 ملین ڈالر ادا کیے ہیں اور اسی دوران 13 ارب 452 ملین ڈالر سود کی شکل میں دیے یہاں ہم ادائیگیاں ڈالروں میں اس لیے گنتے ہیں کیونکہ یہ ڈالروں کی شکل میں ہی کی جاتی ہیں اور روپے کی قدر میں اضافے یا کمی سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا. مگر اگر اسی دورانیے میں ہم صرف حکومتی قرضے، آئی ایم ایف، اور زرِمبادلہ کے واجبات کے حوالے سے پرنسپل ادائیگی اور سود کو دیکھیں (یعنی پبلک سکیٹر کمپنیوں کے قرضے یا نجی کمپنیوں کے بیرونی قرضہ جات وغیر وغیرہ جیسے چیزیں نکال دیں) تو اصل رقم 31 ارب 263 ملین ہے اور سود 11 ارب 372 ملین ہے.
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات