اے ایس پی کینٹ ،ایس ایچ او تھانہ کینٹ اوراے ڈی سی آر نے بھاری نفری کے ہمراہ ہماری چار دیواری کا تقدس پامال کیا،عظمی گل

ہماراانتہائی قیمتی سامان کمپیوٹرز ، پرنٹرز، الیکٹرونک کا مزید سامان اور کچھ ضروری کاغذات بھی اٹھا اٹھا کر باہر پھینکے ، مجھ پر بھی تشدد کی کوشش کی اور مجھے کمرہ میں بند کر دیا،چیئرپرسن واران ٹورز

اتوار 19 اپریل 2020 19:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اپریل2020ء) واران ٹورز کی چیئرپرسن و معروف جرنیل حمید گل کی بیٹی عظمی گل نے گزشتہ روز نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہفتہ کے روز اے ایس پی کینٹ ،ایس ایچ او تھانہ کینٹ اوراے ڈی سی آر نے کینٹ بورڈ کے ملازمین اور پولیس کی بھاری نفری لیکر کینٹ ایریا میں موجود ہمارے ڈپو واران ٹورز کا گیٹ توڑ چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا اور وہا ں پر موجود عملہ کیساتھ غیر مناسب رویہ اختیار کرتے ہوئے دھکے دیئے اور ان پر تشدد بھی کیا ،انہوں نے کہا کہ جب ہمیں اطلاع ملی تو اس وقت میرے شوہر نماز کی تیاری کر رہے تھے ، پولیس نے مین راستہ سے اندر نہیں جانے دیا تو ہم مسجد کے راستے ڈپو میںداخل ہوئے اور پولیس اور انتظامیہ سے پوچھا کہ وہ کس مقصد کیلئے دروازے توڑ کر غیر قانونی طور پر ڈپو کے اندر داخل ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے سوال کرنے پر اے ڈی سی آر نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ گورنمنٹ ہیں اور یہ جگہ وہ خالی کروا کر قرنطینہ بنانے والے ہیں ، جس پر میں نے ان سے کاغذ/ تحریری احکامات مانگے تو اے ڈی سی آر نے غیر مناسب اخلاق میں کہا کہ ان کا آنا ہی کافی ہے کسی قسم کے احکامات اور تحریرکی ضرورت نہیں ، عظمی گل نے کہا کہ جب ہم نے اے ڈی سی آر اور پولیس کو کہا کہ ہمارے پاس عدالتی احکامات (سٹے ) موجود ہے تو انہوں نے معزز عدالتوں اور ججوں کے بارے میں جو جملے استعمال کیے وہ کیمرہ کے سامنے بتاتے ہوئے شرم آتی ہے ، گالم گلوچ کر کے وہاں سے عملہ کو نکالا گیا عظمی گل نے یہ بھی کہا کہ ان کا انتہائی قیمتی سامان کمپیوٹرز ، پرنٹرز، الیکٹرونک کا مزید سامان اور کچھ ضروری کاغذات بھی اٹھا اٹھا کر باہر پھینکے جس پر ہمیں شدید نقصان ہوا ، انہوں نے مزید کہا کہ میں نے دفتر جانے سے جب ان لوگوں کوروکا تو انہوں نے مجھ پر بھی تشدد کی کوشش کی اور مجھے کمرہ میں بند کر دیا۔

(جاری ہے)

میرے سر سے دوپٹہ بھی کھینچ کر اتار دیا میرے شور پر شوہر نے زبردستی مجھے وہاں سے نکالا، ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کیسے قیمتی سامان اور کاغذات کمپیوٹرز کو پھینکا جا رہا تھا ، انہوں نے حکومت سے بھی سوال کیا کہ مجھے کس چیز کی سزا دی جا رہی ہے ،میرے پاس سٹے ہے،میرے اثاثے منجمند پڑے ہیں میں انکو کہاں لے کر جاو ں، 2014 سے فیصلہ آیا ہوا ہے، ہر سال پانچ سے چھ دفعہ ہائی کورٹ میں کیس لگتا ہے سرکار ہمیشہ تاریخ لیکر چلی جاتی ہے ، میں نے کیس کو لاہور ٹرانسفر کرنے کا بھی کہا ،چیف جسٹس سے بھی اپیل کی ،پندرہ سال سے عدالتوں میں دھکے کھا رہی ہوںمگر انصاف نہیں مل رہا ، میں نے ملک سے کوئی پیسہ باہر نہیں بھیجا کوئی بدعنوانی نہیں کی، برٹش کونسل نے پوسٹرز پوری دنیا میں بھیجے کہ یہ خاتون ہمت والا کام کر رہی ہے، جس کا جو دل کرتا ہے وہی بات کرتا ہے کوئی کہتا کشمیر کی زمین ہے، کوئی کہتا سرکار کی زمین ہے ، میں نے اس ڈپو کو بہتر کیا ،اس کے بجلی کے بل لاکھوں کے بھرے جو جی ٹی ایس نے چھوڑے تھے، ماضی میں پولیس ڈپو پر چھاپے مارتی تھی یہاں جوا کھیلا جاتا تھا ، جس کو میں نے صاف کروایا 70 ٹرکوں کا گند صاف کروا کر پھینکا اور اس جگہ پر کوئی دوکان نہیں بنائی کوئی غلط کام نہیں کیا جبکہ لوگوں نے زمین کے لین دین کیلئے بھی رابطے کیے،مگر میں نے کسی کو نہیں دی ، آج میرے والد کو گالیاں دی گئیں ،انتظامیہ کو کوئی احساس نہیں ،میرے والد قومی ہیرو ہیں مگر ان کے ساتھ آج ایسا کیا جا رہا ان کو گالیاں دی جا رہی ہیں، عزت کے رکھوالے چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرنے میں مصروف ہیں ، عدالت کے احکامات کی دھجیاں اڑا دیں گئیں جبکہ مجھے مان تھا کہ میرے پاس سٹے ہے، عظمی گل نے کہا کہ آج حمید گل کی بیٹی کے ساتھ یہ ہو رہا ہے تو عام عوام کا کیا حال ہو گا ،اگر مجھ سے رابطہ کر کے قرنطینہ سنٹر بنانے کا کہا جاتا تو میں خود تمام کام کرتی ،، میں نے بینظیر بھٹو ہسپتال میں آئسولیشن وارڈ بنایا تو یہاں بھی کرتی، مجھے بتایا جائے میں کہاں جاو ں اور کس سے انصاف مانگوںیہ تو پولیس سٹیٹ بن چکی ہے کسی کو کوئی پرواہ نہیں ، کچھ دن تک کورونا وارڈ کا بہانہ ختم کر کے بندر بانٹ شروع کر دی جائے گی ڈپو کی ۔

حکومت ایکشن لے ۔