پشتونخواملی عوامی پارٹی کا وفاقی حکومت کی جانب سے اٹھارویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے اور این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے کوتبدیل کرنے کا عندیہ دینے کی شدید الفاظ میں مذمت

بدھ 29 اپریل 2020 22:41

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 29 اپریل2020ء) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ کے جاری کردہ بیان میں وفاقی مسلط حکومت کی جانب سے اٹھارویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے اور این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے کوتبدیل کرنے کا عندیہ دینے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے فیڈریشن ، قوموں اور محکوم اقوام کے خلا ف ناروا کوشش اور عزائم قرار دیا گیا ۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حقیقی فیڈریشن ، صوبائی خودمختاری اور قومی برابری کیلئے خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی جدوجہد اور قربانیاں سب سے زیادہ ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پشتون ، بلوچ ، سندھی ، سرائیکی اور پنجابی اقوام پر مشتمل ایک رضاکارانہ فیڈریشن ہے اور پشون ،بلوچ، سندھی ، سرائیکی محکوم اقوام کے اکابرین خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی، فخر افغان باچا خان، میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل ، جی ایم سید ودیگر اکابرین کی سربراہی میں بنے والی پشتون ، بلوچ ، سندھی، سرائیکی اقوام پر مشتمل قومی تحریکوں نے صوبائی خود مختاری اور قومی برابری کیلئے تاریخ ساز جدوجہد کی تھی اور ون یونٹ ، چار مارشلائوں اور ملک کے استعماری حکومتوں کی جانب سے ان تحریکوں کے اکابرین اور دیگر رہنمائوں وکارکنوں پر ظلم وجبر ، تشدد کی گئی اور قید وبند کی طویل صعوبتیں براشت کیںتھیں۔

(جاری ہے)

بیان میں کہا گیا ہے کہ ان استعماری قوتوں نے بنگالی عوام کی صوبائی خودمختاری اور قومی برابری تسلیم کرن سے انکارکیا تھا اور نتیجتاً بنگلہ دیش بنا اور اب پشتون ، بلوچ ، سندھی ، سرائیکی اقوام کو آج تک محکوم بنا کرکھا گیا ہے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ محکوم اقوام کی قومی تحریکوں اور اکابرین کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں2010میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں پارلیمنٹ کے ذریعے ملک کی تمام جمہوری جماعتوں کے پارلیمانی پارٹیوں کی اتفاق رائے سے 1973 کے آئین سے مارشلائی ادوار میں کی گئی غیر جمہوری اور غیر آئنی ترمیمات کو خارج کیا گیا اور 18ویں آئینی ترمیم کو پاس کیا گیا اورایک وفاقی پارلیمانی نظام کی نئے سرے سے بنیاد رکھی گئی ۔

اور ایک نئے فیڈریشن کی تشکیل کی جس سے کافی حد تک صوبائی خود مختیاری کا مسئلہ حل ہوا۔ لیکن قومی وحدتوں (وفاقی یونٹس) پشتون ، سندھی، بلوچ ، سرائیکی اور پنجابی 5قومی وحدتوں( صوبوں) پرقوموں کے درمیان حقیقی فیڈریشن کی تشکیل اور قومی برابری اٹھارویں آئینی ترمیم کا حصہ ہونا چاہیے تھا جس کا بہترین ادارہ فیڈریشن کی علامت پاکستان کی سینٹ کے اختیارات قومی اسمبلی کے برابر ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہونے دیا گیا ۔

اور اسی طرح پشتون وحدت، پشتون ملی تشخص ، پشتون قومی سیاسی واک واختیار کا نقطہ ادھورا رہ گیا اور اس پر پشتونخوامیپ کااختلافی نوٹ اٹھاوریں آئینی ترمیم کا ریکارڈ کا حصہ بنا ۔بیان میں کہا گیا ہے کہ آج ایک بار پھر ملک سیاسی ، معاشی ،آئینی بحرانوں میں مبتلا ہے ایک جانب سے کرونا اور دوسری جانب ملک کی معاشی دیوالیہ پن تمام عوام کے سامنے ہیں ، ملک کے آئین کو منفی انداز میں چھیڑنے سے ملک کی قومی اکائیوں اور جمہوری عوام میں سخت تشویش پیدا ہوئی ہے ۔

ملک کے سلیکٹڈ حکمران عقل سلیم کا تقاضا کرتے ہوئے قومی وحدتوں کو سیاسی اختیار دیں اور قومی وحدتوں کی مرضی ومنشاء کے مطابق وفاقی پارلیمانی نظام چلائیں۔ جس میں منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو، ملکی استحکام اور قوموں کی برابری کا فیڈریشن بااختیار پارلیمنٹ اور ملک کے تمام ادارے بااختیار پارلیمنٹ کے ماتحت اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرے اور اس راہ پر ہی ملک تمام بحرانوں سے نجات حاصل کریگی اور ترقی وخوشحالی کی راہ پرگامزن ہوگی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے پاس ہونے کے بعد روز اول سے اس کے خلاف سازشیں کی جارہی ہے اور50فیصد بھی اس پر عملدر آمد نہیں ہوا ، 10سال گزرنے کے باوجود بھی پارلیمنٹ کے بعد سب سے اہم ادارے سی سی آئی(Council of Common Interests )کا کوئی دفتر ، سیکرٹریٹ نہیں بنایا گیا ۔وفاق کی جانب سے جو وزارتیں صوبوں کے حوالے کی گئی اس کی اثاثہ جات اب تک صوبوں کو نہیں دی گئی ، اور دی جانیوالی وزارتوں کے متبادل وفاق نے دوسرے ناموں سے وزارتیں بنائی ۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر عملدرآمد نہ ہونے کے ساتھ ساتھ آئینی مدت کے مطابق NFCاین ایف سی ایوارڈ بھی نہیں لایا جارہا اور یہ کوشش کی جارہی ہے کہ وفاق کا حصہ زیادہ اور صوبوں کا حصہ کم کیا جائے حالانکہ یہ آئین کا حصہ ہے کہ آنیوالی این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے کو کسی صورت کم نہیں کیا جاسکتا۔ وفاق کا حصہ کم اور صوبوں کاحصہ زیادہ ہونا چاہیے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کے استعماری اور مقتدر طبقات پشتون ، بلوچ ، سندھی ،سرائیکی محکوم اقوام کے قدرتی وسائل پر ان کی حق ملکیت سے انکاری ہیںاور اٹھارویں آئینی ترمیم کوجسے تمام ملکی پارٹیوں نے متفقہ طور پر پاس کیا گیا ہے کو رول بیک کرنے اور NFCایوارڈ میں رد وبدل کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک کے محکوم اقوام وعوام اور تمام جمہوری سیاسی پارٹیاں شدید مزاحمت کریگی جس سے ایک بہت بڑاآئینی بحران پیدا ہوگااور اس بحران کا موجودہ حالات میں پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔

پارٹی بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہاکہ اٹھارویں آئینی ترمیم پر من وعن عملدآمدکیا جائے ، آئین کے مطابق این ایف سی ایوارڈ کا جلد سے جلد اعلان کیا جائے ، سینٹ کے اختیارات قومی اسمبلی کے برابر کیئے جائے ،سیاسی امور، خارجہ ، داخلہ ، معاشی پالیسیوں میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، پارلیمنٹ خودمختار ہونا چاہیے اور پارلیمنٹ پر کسی قسم کا کنٹرول نہیں ہونا چاہیے، ملک کے تمام اداروں کو پارلیمنٹ کی بالادستی کوتسلیم کرنا ہوگااورآئین وقانون کی حکمرانی ہونی چاہیے یہی پاکستان کی بقاء کا راستہ ہے۔