پاکستان نامساعد حالات سے گزر رہا ہے،کراچی میں تاثر شدید ہوتا جارہا کہ کراچی والوں پر شب خون مارا جا رہا ہے،مصطفی کمال

کراچی70فیصد ریوینیو کما کر دیتا ہے لیکن اسکا کچرا نہیں اٹھتا، گیس اور بجلی پورے پاکستان میں سب سے مہنگی ہے، کالج، یونیورسٹی میں ایڈمشن اور نوکریاں چھین لی گئی ہیں، پریس کانفرنس

جمعہ 8 مئی 2020 22:49

پاکستان نامساعد حالات سے گزر رہا ہے،کراچی میں تاثر شدید ہوتا جارہا ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 مئی2020ء) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے کہاہے کہ پاکستان نامساعد حالات سے گزر رہا ہے،کراچی میں تاثر شدید ہوتا جارہا کہ کراچی والوں پر شب خون مارا جا رہا ہے،یہ شہر 70 فیصد ریوینیو کما کر دیتا ہے لیکن اسکا کچرا نہیں اٹھتا، گیس اور بجلی پورے پاکستان میں سب سے مہنگی ہے، کالج، یونیورسٹی میں ایڈمشن اور نوکریاں چھین لی گئیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو مرکزی سیکرٹریٹ پاکستان ہائوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔چیئرمین پی ایس پی نے کہاکہ کراچی کے لوگوں سے سندھ کے حکمران کراچی دشمنی کر رہے ہیں جو بہت خطرناک ہے۔ اس تاثر کی وجہ پیپلز پارٹی کی سابقہ طرزِ سیاست ہے۔ سندھ کے نوجوانوں کے لیے قرضوں کا اشتہار دیا جاتا ہے اسی میں ایک خانہ ہوتا ہے کہ کراچی کے لوگ کوشش نہ کریں۔

(جاری ہے)

پبلک سروس کمیشن میں ایک ہی گھر سے دیہی کوٹے پر بیٹا اور شہری کوٹے پر بیٹی کامیاب ہوتی ہے۔ اربوں روپے بغیر شفافیت کے بانٹ دیئے گئے اور کسی کو کچھ نہیں ملا۔ ہم نے لسانی نفرتوں کے خاتمے کے لیے قربانی دی ہے۔ میں نے سیاسی مفادات کے لیے جاگ مہاجر جاگ کا نعرہ نہیں لگایا۔ سندھ بھر میں جا کر کہا کہ سندھ کے کوئی دو ٹکڑے نہیں کر سکتا۔ الطاف حسین سے نہیں ڈرے تو کسی اور سے کیوں ڈریں گے۔

اگر گرفتار کرنا چاہیں تو کر لیں لیکن اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ پاک سرزمین پارٹی نے پہلے دن ہی کہا کہ حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور تعاون کریں گے لیکن ابتک وفاقی اور صوبائی حکومت کا کوئی متفقہ موقف نہیں آیا، صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ جاری ہے۔ سندھ حکومت تاثر دے رہی ہے کہ لاک ڈان ہے جبکہ عملا کوئی لاک ڈان نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو بچائیں یا معیشت کو لیکن حکومت صرف انہیں بچانا چاہتی ہے جو کورونا سے متاثر ہیں جبکہ ہم سب کی بات کر رہے ہیں لوگ دیگر بیماریوں اور بھوک سے بھی مر رہے ہیں جو ریاست کی زمہ داری ہیں۔

ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، راشن پہچانا حکومت کی زمہ داری تھی لیکن ہم نے اور بے تحاشہ این جی اوز نے مل کر حکومت کا کام کرتے ہوئے راشن بانٹا۔ اس موقع پر کراچی بھر سے معروف تاجر رہنماں اور انجمنوں کی شرکت، پارٹی صدر انیس قائم خانی، اراکینِ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی و نیشنل کونسل بھی ہمراہ موجود تھے۔ سید مصطفی کمال نے مزید کہا کہ کراچی کے چھوٹے تاجر بڑے سرمایہ دار نہیں لیکن لاکھوں لوگوں کو روزگار دیتے ہیں۔

کپڑے کے تاجر اور اس سے جڑے لوگ اس مہینے کما کر پورا سال کھاتے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کو لوگوں کی فکر ہوتی تو لاڑکانہ میں بچے کتوں کے کاٹنے سے کراچی آ کر نہیں مر رہے ہوتے، بیچ میں کوئی ایسا اسپتال نہیں جہاں اس کا علاج ہو پاتا، سب جھوٹ بول رہے ہیں، پیپلز پارٹی اگر سندھ سے مخلص ہوتی تو لاڑکانہ کو پیرس بنا دیا ہوتا۔کراچی کی جب بات کی جائے تو شہر کے بجائے پورے ملک کی بات کی جاتی ہے، ہم سیاست نہیں کر رہے لوگوں کی آواز حکمرانوں تک پہنچا رہے ہیں۔

نان بائیوں کو مغرب کے بعد دکانیں کھولنے سے منع کیا جا رہا، وہ غریب روزے میں کیسے روٹیاں بیچیں۔ پولیس دکانداروں کو تنگ کر رہی ہے، کراچی میں غیر مقامی پولیس ہے اب کورونا کی آڑ میں رہا سہا کاروبار بھی ختم کیا جا رہا ہے، لاک ڈان کے نام پر شہریوں کو بے عزت کیا جارہا، موٹر سائیکلوں پی خواتین ساتھ میں ہوتی ہیں اور پولیس والے ٹائروں کی ہوا نکال دیتے ہیں جبکہ پنکچر بنوانے کی دکانیں بھی بند ہیں۔

پولیس والوں کی عید سے پہلے عید ہو گئی ہے، دس ہزار سے زائد ایف آئی آر کاٹ دی گئی۔ رشوت کا بازار گرم ہے۔ وفاقی حکومت علیحدہ اور صوبائی حکومت علیحدہ پریس کانفرنس کر رہی ہے، نیچے پالیسی پر عملدرآمد کرنے والا کوئی نہیں۔ بار بار مطالبہ کیا کہ بلدیاتی حکومتوں کو فعال کیا جائے لیکن ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی میں کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔

تاجروں کو کاروبار کے لیے انتہائی چھوٹے قرضوں کے عوض مکان و دکان کے کاغذات مانگے جارہے ہیں جو قابل مزمت ہے۔ پیر کی صبح تک ہر حال میں کاروبار کو کھولا جائے ورنہ تاجر اب سڑکوں پر ہونگے اور پاک سرزمین پارٹی انکے شانہ بشانہ ہوگی، تاجر حکومت کے دیئے گئے تمام ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان خود کراچی سے منتخب ہوئے تھے، اس شہر سے ان کے 14 ایم این اے 26 ایم پی اے ہیں لیکن وہ ایک دن کیلئے کراچی نہیں آئے۔

جو شہر کی حکمرانی کا دعوی کرتے ہیں وہ کورونا میں عوام کو چھوڑ کر وزارتوں کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مہاجروں اور اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ خالد مقبول صدیقی کی جگہ امین الحق کا وزیر بننا تھا جبکہ شہر کا میئر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ اس کی آڈیوز اور ویڈیوز واٹس ایپ گروپس پر گردش کر رہی ہیں، ایسا شخص کیسے شہر کیلئے اختیار لے گا۔